کیا فوجی عداالتیں پاکستان کے مفاد میں ہیں؟

کیا فوجی عداالتیں پاکستان کے مفاد میں ہیں؟
پاکستان میں فوجی عدالتوں کی معیاد 31 جنوری 2019 کو ختم ہو رہی ہے۔ سارے دانشور اور میڈیا ان کی توسیع کے بارے میں بحث مباحثہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کے آئین میں ہر ادارے کے بارے یعنی پارلیمان، مقننہ اور عدلیہ کے کردار کے بارے میں واضع طور پر ان کے حقوق و فرائض درج ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کو بار بار فوجی مار شل لاؤں نے سبوتاژ کیا اور اس وجہ سے پاکستان میں جمہوریت بالغ نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسے معلاملات پر بات کرنا پڑتی ہے جن پر ایک پختہ جمہوریت میں بات کرنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے اور جاننے کے لئے ہمیں پاکستان کی تاریخ میں جانا پڑتا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں یہ بات عملی طور پر طے نہیں ہو سکی ہے کہ سپریم کون ہے۔ پارلیمنٹ یا اور کوئی ادارہ؟



افسوس کے ساتھ یہ ماننا پڑتا ہے کہ پاکستان ایک ملک تو بن گیا مگر ایک قوم نہیں بن سکا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ڈراور خوف نہیں کہ اس کی بنیادی وجہ سویلین اداروں یعنی پارلیمنٹ کی کمزوری اور فوجی ادراوں کی بالادستی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں جھانکے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی دفعہ فوجی عدالتوں کا 1953 میں قیام ہوا۔ یہ یاد کرانا بہت ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وہ قوتیں جو قیام پاکستان کے خلاف تھیں انہیں احساس اور ادراک ہوا کہ بر صغیر میں ایک ریاست ان کی مخالفت کے باوجود قائم ہو گئی ہے جسے وہ اپنے نظریے کے مطابق چلا سکتے ہیں لہٰذا انہوں نے قرارداد مقاصد پاس کروانے کے بعد حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ہر پاکستانی کے مذہب کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل کرے اور ہر پاکستانی کے مذہب کے بارے میں طے کرے کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں۔ 1953 میں ایک تحریک چلی کہ پاکستان میں احمدیوں کو کافر قرار دیا جائے۔
یہ معاملہ کوئی نیا نہیں تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح، بانی پاکستان سے بھی اس معاملہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو وہ اسے کیسے کافر کہیں؟ جب احمدیوں کو کافر قرار دلوانے کی تحریک زور پکڑ گئی اور حکومت نے محسوس کیا کہ وہ اب اس تحریک سے نمٹ نہیں سکتی تو اس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ محسوس کیا کہ اس تحریک کو کچلنے کے لئے فوج کی مدد کی ضرورت ہے تو اس نے لاہور میں مارشل لا لگا دیا اور فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔



فوج نے فوراً امن قائم کر دیا اور فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔ فوجی عدالت نے جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی اور اہل سنت کے رہنما مولانا عبدلستار نیازی کو پھانسی کی سزا دی۔ امن قائم کرنے کے بعد لاہور سے مارشل لا اٹھا لیا گیا اور حکومت نے اس تحریک کے اسباب اور وجوحات جاننے کے لئے جسٹس منیر کی قیادت میں ایک کمشین قائم کیا۔ میں اس کمیشن کی رپورٹ پر یہاں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ پاکستان میں ہر سیاسی کارکن اور تاریخ اور سیاست کے طاب علم کو اس کمیشن کی رپورٹ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ سارے پاکستان میں پہلی دفعہ ملڑی کورٹ جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں قائم ہوئے کیونکہ جنرل محمد ایوب خان کو کسی حد تک فوج کے سویلین حکومت میں مداخلت کے نقصانات کا احساس تھا اس لئے اس نے چند سالوں میں ملک سے مارشل لا اٹھا لیا، خود صدر پاکستان بن گیا اور جنرل موسیٰ کو فوج کا کمانڈر ان چیف بنا دیا۔
1969 میں جب محمد ایوب خان کے اپنے نامزد فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل محمدایوب خان کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا تو اس کے ساتھ ملک میں دوبارہ فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس مارشل لا کی بہت کم لوگوں نے مخالفت کی لیکن لاہور ڈسڑک بار کے ایک سینیر وکیل شیخ اشفاق کو جب پولیس ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرتی تو وہ کھلے عام مارشل لا کو گالیاں دیتا تھا۔ (راقم اور پروفسیر سہیل احمد خان نے بھی یحییٰ مارشل لا کے خلاف یونیورسٹی کیفیٹیریا میں نعرے لگائے تھے)۔ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ یونین الیکشن میں دھاندلی کے خلاف طلبہ احتجاج کی پاداش میں طلبہ کے خلاف ملڑی کورٹ میں مقدمہ چلا اور ان کو سزائیں دی گئیں جن میں جہانگیر بدر اور حافظ ادریس شامل تھے۔ ملک ٹوٹنے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ملڑی کورٹ نے پیپلز پارٹی کے منتخب ممبر پارلیمنٹ رانا مختار کو ملڑی کورٹ سے سزا دلواکر نا اہل قرار دے دیا۔ 1977 میں جب فوج کے سربراہ محمد ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا تو اس کے ساتھ ملڑی کورٹ بھی قائم کر دیے۔ یعنی آج کے دور کا NAB قائم کردیا جس نے پیپلز پارٹی کے ممبران کو دھڑا دھڑ نااہل قرار دینا شروع کر دیا۔ Beyond Their Means Living (صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگائے، قید اور پھانسیاں دیں، راقم کو بھی ملڑی کورٹ نے ایک سال سزا اور پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا)۔



جب ضیا الحق کی مجلس شوریٰ سے کام نہ چلا تو 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے لئے سارے نااہل سیاست دانوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا گیا۔ جنرل مشرف کے زمانے میں سیاست دانوں سے نمٹنے کے لئے NAB قائم کر دیا گیا۔ یہ بات کوئی کرنے کے لئے تیار نہیں کہ افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے وجہ سے پاکستان میں جو دہشت گردی پھیلی اس کا ذمہ دار کون ہے۔ جنرل مشرف پر فوج کے اندر سے حملے ہوئے۔ جی ایچ کیو پر حملہ بھی اندر سے مدد سے ہوا۔ افغان جنگ اور افغانستان میں طالبان بنانے کے ساتھ پاکستان میں بھی طالبان بن گئے۔ انجمن سپاہ صحابہ اور دوسری مذہبی دہشت گرد تنتظمیں کس نے بنائیں اور ان کے بنانے میں ریاست کے کن کن اداروں کا ہاتھ تھا یہ کوئی ڈھکی چپھی بات نہیں ہے۔ یہ بات بھی اب بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران نے پاکستان میں اپنی تنظیموں کے ساتھ پروکسی جنگ لڑی۔ مذہبی دہشت گرد تنظیمیں اتنی مضبوط ہو گئیں کہ سوات میں ملڑی ایکشن کرنا پڑا۔ قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ ختم ہو گئی۔
پھر 2014 میں پشاور میں ملڑی سکول کا سانحہ ہو گیا جس کے بعد محسوس کیا گیا کہ عام عدالتیں بمشول (خصوصی عدالتیں) دہشت گردی کے خلاف عدالتیں دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ سو 2014 میں آئین میں ترمیم کر کے ملڑی کورٹ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے قائم کر دیے گئے۔ ان کو 2017 میں ایک اور آئینی ترمیم کر کے دو سال کے لئے توسیع دی گئی جو جنوری 2019 میں ختم ہو رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں جب فوجی عدالتوں کا معاملہ آیا تو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے حق میں (گو منقسم) فیصلہ دیا۔ اب چونکہ فوجی عدالتوں کی توسیع کی بات ہو رہی ہے اور موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ میں 2/3 اکثریت حاصل نہیں ہے اس کے لئے اسے مخالف جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے یہ وقت ہے کہ ہم معروضی طور پر پاکستان میں قائم فوجی عدالتوں اور ان کی کارکردگی اور اس کے دہشت گردی کے خاتمہ پر کھل کر اور ایمانداری سے بحث کریں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف اور جھجھک نہیں ہے کہ میری رائے میں فوجی عدالتوں کو توسیع دینا پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدلیہ بھی اپنے آپ کو فوج کی چھتر چھایہ کے بغیر غیر محفوظ سمجھتی ہے، ایسے میں جب عدلیہ اپنے دائرہ اختیار کا دفاح کرنے کی اہل نہیں ہے تو ایک دفعہ پھر سارا بوجھ سیاست دانوں پر آتا ہے۔ میری نظر میں سیاست دانوں کو ریاست پاکستان کے وسیع تر مفاد میں فوجی عدالتوں کو توسیع نہں دینی چاہیے اورموجودہ عدلیہ کا نظام جیسا بھی ہے اس کو مضبوط بنانے کے حق میں ووٹ دینا چاہیے۔