ریاست جموں و کشمیر کا حل رائے شماری یا خودمختاری

ریاست جموں و کشمیر کا حل رائے شماری یا خودمختاری
اگست 1947، قانونِ آزادیِ ہند کے مطابق جب بھارت اور پاکستان بنے، تو صرف ریاست جموں و کشمیر واحد ریاست تھی جس نے بھارت یا پاکستان سے الحاق کرنے کے بجائے خودمختاری کو ترجیح دی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک سٹینڈ سٹل معاہدہ دونوں ملکوں کو بھیجا جس کو پاکستان نے مان لیا لیکن بھارت نے کوئی جواب نہ دیا اور پھر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی ریاست جموں و کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے وادی میں گھس گئے۔ قبائلیوں نے چار دن کے اندر اندر مظفرآباد تک کے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

قبائلیوں کے اس حملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہاراجہ ہری سنگھ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا۔ کیونکہ، اس کی ریاست پر حملہ سٹینڈسٹل معاہدہ کی خلاف ورزی تھی، اس لئے مہاراجہ نے جب دیکھا کہ ڈوگرا فوج، قبائلیوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو رہی ہے تو اس نے 26 اکتوبر 1947 کو بھارت سے مدد مانگی۔ بھارت مہاراجہ کی مدد اس شرط پر کرنے کو راضی ہوا کہ مہاراجہ بھارت سے الحاق کرے، پہلے مہاراجہ نے انکار کر دیا لیکن جب ریاست کی پیچیدہ حالت کو دیکھا تو مشروط الحاق کرنے پر راضی ہو گیا۔

(اس مشروط الحاق کی شرائط آرٹیکل 370 اور 35A تھیں، جن کو انڈیا نے 5 اگست 2019 کو ختم کر دیا)

یوں 27 اکتوبر 1947 کو انڈین آرمی ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوئی۔ اس کے بعد ریاست جموں و کشمیر کو باقاعدہ ایک منصوبہ کے تحت (جس میں بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ شامل تھا) نے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ 1948 میں ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو بھارت اقوامِ متحدہ میں لے گیا، جہاں اقوامِ متحدہ نے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ایک قرارداد پاس کی، جس کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کروائی جائے گی اور لوگوں کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ کیونکہ، ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو اس وقت برصغیر میں برپا ہندو مسلم فساد سے جوڑ دیا گیا تھا۔ اس لیے پہلی قراردار اپریل 1948 میں اسی بنیاد پر پاس ہوئی، جو بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی تھی۔

اس قرارداد میں کشمیریوں کو تین آپشن دیے گے۔ پاکستان سے الحاق، انڈیا سے الحاق یا خودمختار ریاست۔ اس کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے پر کئی قراردادیں پاس ہوئیں لیکن آج تک کسی پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یوں ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک منصوبے کے تحت قراردادوں کے چنگل میں پھنسایا گیا اور آزادی کی حقیقی راہوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں دونوں ملک کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

میرے خیال میں کشمیریوں کی جدوجہد پہلے دن سے ہی غلط تھی، جس کا نتیجہ آج یہ نکلنے جا رہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا بھارتی زیرِ قبضہ حصہ بھارت نے اپنے اندر ضم کر لیا ہے اور پاکستانی زیرِ انتظام حصے کو پاکستان ضم کرنے جا رہا ہے۔ کشمیریوں کی ہر قسم کی جدوجہد رائے شماری پر ختم ہوئی، یعنی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پہلے پاکستان اپنی افواج کو ریاست جموں و کشمیر سے نکالے اور پھر بھارت بھی اپنی فوج کا صرف اتنا حصہ ریاست میں رکھے جو رائے شماری کروانے کے لئے چاہیے۔ باقی فوج کو باہر نکالے اور پھر اقوامِ متحدہ کی افواج یہاں آئیں اور رائے شماری کروائیں۔

کشمیری کسی تیسری قوت کو کہہ رہے ہیں کہ کشمیریوں سے پوچھو کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں، پھر کشمیری جو کہیں گے اس کے مطابق فیصلہ کرنا۔ ریاست جموں و کشمیر کی عوام پچھلے 73 سالوں سے بھٹکی ہوئی ہے۔ آدھے لوگ بھارت سے الحاق پر زور دیتے تو آدھے پاکستان سے الحاق پر، اور باقی جو بچتے ہیں وہ اس مسئلے کے حل کے لئے اقوامِ متحدہ کی طرف بھاگتے ہیں۔ یعنی کشمیری ہی کشمیر کے مالک ہیں اور کشمیری ہی کہہ رہے ہیں کہ ہم سے پوچھو ہم کیا چاہتے ہیں اور پھر ہم اپنی جو رائے دیں گے اس کے مطابق ہمارا فیصلہ کریں۔ مطلب کوئی منطق ہی نہیں بنتی۔ پھر مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ اقوامِ متحدہ کبھی بھی یہ مسئلہ حل نہیں کرے گا۔

چلو مان لو اگر اقوامِ متحدہ یہاں رائے شماری کرواتا بھی ہے، تو رائے شماری کا نتیجہ ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم ہی نکلے گا۔ کیونکہ، آپ سب کو علم ہونا چاہیے کہ اگر ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری ہوتی ہے تو جموں اور لداخ میں ہندو اور بدھ مت بھارت کے حق میں ووٹ دیں گے اور گلگت بلتستان کے مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اس کے علاوہ ویلی اور آزاد کشمیر میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت اور پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، جس کا نتیجہ ریاست کی تقسیم کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ اس لیے کشمیریوں کو پہلے یہ سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ ہو گیا ہے یا ہونا ہے۔

میرے خیال میں اگر قانونِ آزادی ہند کے مطابق دیکھا جائے تو مہارا راجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ کر دیا تھا کہ ریاست جموں کشمیر خودمختار ریاست رہے گی (اس نقطہ پر غور کیجیے گا)۔

ظالم کا ظلم تب تک کامیاب نہیں ہو پاتا جب تک مظلوم خود اپنے اوپر ظلم نہ کروائے۔ ریاست جموں و کشمیر کی عوام کو اب اِس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ 73 سالوں سے اپنے اوپر بہت ظلم کروا لیا جس کے سنگین نتائج آج تک سامنے آ رہے ہیں۔ جہاں کشمیریوں کو ان قابضین کے خلاف لڑنا چاہیے تھا، چاہے جنگ کرتے یا پرامن اور سیاسی طریقے سے جدوجہد کرتے وہاں کشمیری قوم نے ہمیشہ رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ جو میرے نزدیک بلکل ایک فضول اور بے بنیاد چیز ہے۔

یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں والا جو لولی پاپ ریاست جموں و کشمیر کی عوام کو دیا گیا ہے، میرے خیال میں کشمیریوں کو اب اِس کے بارے میں سوچنا اور سمجھنا ہو گا اور اس سارے چنگل سے نکل کر قابضین کے خلاف ایک حقیقی معنوں میں جدوجہد شروع کرنا ہو گی۔

یاد رہے واپسی کا راستہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا ہاں البتہ دیری سے تھوڑی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ابھی وقت ہے سنبھلنے کا۔