بھارتی ریاست آسام کے سونا پور علاقے میں رہنے والے ڈاکٹر دھنی رام بروا نے کہا ہے کہ میں نے سور کے دل کی انسانی جسم میں پیوند کاری کا تجربہ 1997 میں کیا تھا لیکن مجھے جیل بھیج دیا گیا۔
بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ
‘میں نے 25 سال پہلے انسان کے جسم میں ایک سؤر کا دل لگایا تھا، اس دوران میں نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر دنیا کو بتایا تھا کہ سؤر کا ہر عضو انسانی جسم میں لگایا جا سکتا ہے لیکن اس وقت کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں کی حکومت نے مجھے جیل میں ڈال دیا تھا اور اب اتنے عرصے بعد دنیا امریکی ڈاکٹروں کی جانب سے سؤر کے دل کے انسان میں ٹرانسپلانٹ کی بات کو ایک کامیاب تجربے کے طور پر دیکھ رہی ہے جبکہ یہ تحقیق اور تجربہ سب سے پہلے میں نے کیا تھا۔‘
71 سال کے ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر دھنی رام بروا یہ کہتے ہوئے غصے میں بار بار میز پر مکہ مارتے ہوئے چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں فالج کے حملے کے بعد ڈاکٹر دھنی رام بروا اب ٹھیک طرح بات نہیں کر پاتے۔ ان کی اہلیہ دلیمی بروا نے ان کے ساتھ کئی برس تک کام کیا اور وہ ان کے احساسات سمجھتی ہیں۔ انھوں نے غصے کی وجہ اور ان کی تحقیق کے حوالے سے ان پر ہونے والے مظالم کی تفصیل بیان کی۔
حال ہی میں امریکہ میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سؤر کا دل ایک شخص میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے یعنی سرجری کی دنیا کی تاریخ میں پہلی بار سؤر کا دل انسان میں لگایا گیا۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی سرجری دنیا میں پہلی بار کی گئی ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈیوڈ بینیٹ نامی 57 سال کے شخص اب صحت یاب ہو رہا ہے۔
امریکی ڈاکٹروں کی جانب سے پہلی بار ایسے ٹرانسپلانٹ کے دعوے کے بارے میں پوچھتے ہی ڈاکٹر دھنی رام نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
لیکن اگلے ہی لمحے تھوڑی سی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخرکار میڈیکل سائنس کے ماہرین نے 25 سال بعد یہ بات مان لیا کہ سؤر کے اعضا انسانی جسم میں پیوند کیے جا سکتے ہیں۔
ریاست آسام کے سونا پور علاقے میں رہنے والے ڈاکٹر دھنی رام بروا، ہارٹ سٹی اور سٹی آف ہیومن جینوم کے نام سے ایک میڈیکل انسٹیٹیوٹ چلاتے تھے۔
ڈاکٹر باروا کے مطابق امریکی ڈاکٹروں کی جانب سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سؤر کے دل کی پیوند کاری کوئی نئی بات نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکی ڈاکٹروں نے یہ کارنامہ اسی تکنیک کی بنیاد پر حاصل کیا جو انھوں نے برسوں پہلے اپنی تحقیق کے ذریعے استعمال کی تھی۔
انسانی جسم میں سؤر کے دل کی پیوند کاری کے بارے میں بی بی سی سے بات چیت میں ڈاکٹر بروا نے کہا ’میں نے پہلی بار یکم جنوری 1997 کو ایک 32 سال کے شخص کے جسم میں سؤر کے دل کی پیوند کاری کی تھی۔ اس سرجری سے قبل 100 سے زائد تحقیق کی گئی تھیں اور اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ انسانی جسم سؤر کے کئی اعضا کو قبول کرتا ہے۔‘
‘یہ ایک کامیاب سرجری کا نتیجہ تھا کہ دل کی پیوند کاری کے بعد مریض 7 دن تک زندہ رہا لیکن مریض کو متعدد انفیکشن ہونے کے سبب اس کی جان نہیں بچائی جا سکی۔ درحقیقت مریض کے دل کے نچلے چیمبر میں سوراخ تھا جسے وینٹریکولر سیپٹل ڈیفیکٹ کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مریض کو کئی طرح کے انفیکشن ہو گئے تھے۔‘
ڈاکٹر دھنی رام بروا نے ہانگ کانگ کے ایک سرجن ڈاکٹر جوناتھن ہو کی شنگ کے ساتھ مل کر سونا پور میں اپنے ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں یہ سرجری کی تھی۔
تقریباً 15 گھنٹے کی اس سرجری میں ڈاکٹر بروا نے سؤر کا دل اور پھیپھڑے اس مریض میں لگائے تھے۔ لیکن مریض کی موت کے بعد اس ٹرانسپلانٹ پر بڑا تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔
مقامی میڈیا میں اس واقعے کی خبر پھیلنے کے بعد، دونوں ڈاکٹروں کو مجرمانہ قتل اور انسانی اعضا کی پیوند کاری ایکٹ 1994 کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سکاٹ لینڈ کے رائل کالج آف گلاسگو سے کارڈیو سرجری کی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر دھنی رام اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘آج پوری دنیا میں پگ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی دھوم مچی ہوئی ہے لیکن مجھے اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور انسٹی ٹیوٹ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ 40 دن جیل میں رہنا پڑا، حکومت یا میڈیکل کے شعبے میں کام کرنے والے کسی شخص نے میری مدد نہیں کی تھی اور آج بھی میرے خلاف وہ کیس چل رہا ہے۔‘