Get Alerts

تبدیلی میں توڑ پھوڑ تو ہوتی ہے

تبدیلی میں توڑ پھوڑ تو ہوتی ہے
تحریر: ( ارشد سلہری) حکومت اگر ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے تو پھر شور کس بات کا ہے، حالات و واقعات تو یہی بتاتے ہیں کہ شور کے پچھے کئی وجوہات ہیں ۔ یہ شور سیاستدانوں کا ہے یا تاجروں کا ہے یا پھر دیگر طبقات جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ یہ ہو گیا ہے, وہ کردیا ہے،  فلاں فلاں ہونے جا رہا ہے۔ یہ کس کے مفادات خطرے میں ہیں؟ یہ پھڑپھڑاہٹ کیونکر ہے؟ کیا یہ واویلا عوام کو سہولیات کی عدم فراہمی پر کیا جا رہا ہے۔ بالکل نہیں۔

یہ تبدیلی کے خوف میں اپنی بقا کے لئے چیخ وپکار ہے۔ تبدیلی جب آتی ہے۔ اتھل پتھل تو ہوتی ہے اور اتھل پتھل میں ٹوٹ پھوٹ بھی لازمی ہوتی ہے۔ جب توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو کہیں شورو غوغا ہوتا ہے۔ کہیں چیخ وپکار ہوتی ہے اور کہیں آہ بکا کی آوازیں بھی آتیں۔ اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آپ چاہیں کہ تبدیلی بھی آئے اور توڑ پھوڑ بھی نہ ہو۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو پھرسرجری کرنا پڑتی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں سب کہتے رہیں ہیں نا کہ ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ سیاست میں مافیا گھس آئے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ملٹی نیشنل کمپنیاں بن چکی ہیں، موروثی سیاست پروان چڑھ رہی ہے، لوٹ مار جاری ہے، ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے ۔ایک ایم پی اے یا ایم این اے الیکشن پر کروڑ لگاتا ہے تو حکومت میں آنے کے بعد کئی کروڑ کما لیتا ہے۔ کرپشن کا طوفان بدتمیزی ہے۔ سیاستدان محض کمیشن ایجنٹ ہیں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی سرایت کرچکی ہے اور بہت کچھ مسلسل کہا جاتا رہا ہے۔ جو سب ضبط تحریر میں لانا شاید ممکن نہیں ہے ۔ آج اگر پوچھا جا رہا ہے۔ مافیا، کمیشن خوروں، کرپٹ اور بدعنوانوں کے خلاف کاروائی کے لئے حکومت نے جرات کی ہے تو ملک کی ہر چیز خطرے میں نظر آنے لگی ہے۔

 یہ درست ہے کہ حکومت اپنے پہلے دس ماہ میں کوئی انقلاب بپا نہیں کرسکی ہے۔ جس سے براہ راست عوام مستفید ہوتے اور عوام کو کچھ ریلیف حاصل ہوتا۔

عمران خان اور اس کی ٹیم انقلابی ہے بھی نہیں ہے۔ عمران خان حکومت بھی وہی کر رہی ہے جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں کرتیں رہی تھیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر احساس پروگرام دے دیا گیا ہے۔ آسان شرح سود پر قرضے بھی دیئے جائیں گے۔ نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا ہے اور کئی منصوبے شروع کردیئے گئے ہیں۔ کئی منصوبے آگے شروع ہونے والے ہیں۔

عمران خان حکومت نے تو نوجوانوں سے لیپ ٹاپ بھی واپس نہیں لئے ہیں اور نہ میٹرو بس بند کی ہے۔ سستے تندوروں کا اربوں روپیہ بھی یوں کا توں ہے۔ شہباز شریف، نواز شریف اور آصف زرداری کے کسی ایسے انقلابی پروگرام کو بند نہیں کیا ہے جس سے عوام کو حاصل براہ راست سہولیات چھن گئی ہوں۔ نا اہلی، ناتجربہ کاری اور عدم وژن کے طعنے دینے کے بجائے بتایا جائے کہ حکومت کیا اقدام کرے جس سے ملک وقوم کی بہتری ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بار ی باری کئی حکومتیں کیں ہیں۔ بجلی، گیس، پانی سمیت روزگار اورمہنگائی کے مسائل حل کئے ہیں۔

پاکستان کی معاشی صورتحال ترقی یافتہ ممالک کے مقابل تھی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا ملک مقروض نہیں تھا۔ عمران حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے قرضے کی لعنت سے پہلی بار روشناس کرایا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے معیشت دان، سیانے، ایلیت، صلاحیت اور تجربہ کاری سمیت حکومت کا حصہ ہیں بلکہ عمران خان کی مشاورتی ٹیم ہی انہی پر مشتمل ہے۔

 یقینی طور عمران خان مشاورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتے ہوں گے ۔ لیکن پھر بھی سیانے عوام کے مفاد کی خاطر ضرور بتائیں کہ کرپٹ اور بدعنوان مافیا کے ساتھ کیا شریفانہ سلوک کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور ڈانگ بھی بچ جائے۔

معیشت کو دستاویزی بنانے کےلئے کون سا فارمولا اپنایا جائے کہ تاجر برادری کا کاروبار آسانی سے ٹیکس نیٹ کا حصہ بن جائے۔ سیانے یہ فارمولا کیوں نہیں بتاتے کہ جس سے ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا چوکھا آئے۔

 

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔