Get Alerts

تحریک انصاف پر پابندی لگانے میں حکومت کتنی حق بجانب ہے؟

اگر پاکستان کے 250 ملین لوگوں نے امن، استحکام، معاشی ترقی اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل تعمیر کرنا ہے، تو اسے پروجیکٹ عمران اور اس کی باقیات یعنی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بچھائی ہوئی لینڈ مائنز سے مکمل نجات حاصل کرنا ہو گی۔ یہ کام پوری قوم کے اتحاد اور تعاون سے ہی ممکن ہے۔

تحریک انصاف پر پابندی لگانے میں حکومت کتنی حق بجانب ہے؟

پاکستان میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نظام میں مداخلت اور جوڑ توڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخی طور پر مقتدرہ نے سیاست میں بار بار مداخلت کی ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری ادارے کمزور اور عدم استحکام کا شکار ہوئے۔ تاہم 2007 میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے مابین میثاق جمہوریت پر دستخط اور 2008 میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد ایسا لگتا تھا کہ مداخلت پسندی کا دور شاید ختم ہو گیا ہے۔ میثاق جمہوریت کا مقصد جمہوری حکمرانی کے لیے ایک فریم ورک قائم کرنا، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا اور سیاست میں بیرونی مداخلت کو روکنا تھا۔ اگرچہ یہ معاہدہ جمہوریت کی طرف ایک اہم اور بڑا قدم تھا، لیکن مقتدرہ کی پرانی عادتوں نے دوبارہ سر اٹھایا اور صرف دو سال بعد ہی 2010 میں مقتدرہ نے ' پروجیکٹ عمران' لانچ کر دیا۔ میثاق جمہوریت کے باوجود مقتدرہ کی طرف سے سیاسی منظرنامے کی تشکیل اور اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے پروجیکٹ عمران کو موجودہ دور کا سب سے شرمناک اور تحریک انصاف جیسے سیاسی یتیموں کا ملک اور عوام دشمنی کا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

پروجیکٹ عمران نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظرنامے کو تقریباً تباہ کر دیا ہے۔ یہ سیاسی تجربہ، ثاقب نثارعدلیہ کی ملی بھگت کے ساتھ کیا گیا، جس کا مقصد، میثاق جمہوریت کو بے اثر کرنا، پاکستان کے سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کے امکانات کو معدوم رکھنا، جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے مہرے کو اقتدار میں لانا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ابلاغ پر پیسہ پانی کی طرح بہایا، میڈیا مالکان، صحافی، ججز، مذہبی رہنما، شوبز سٹارز، سب پر ریاستی وسائل بے دریغ لٹائے گئے اور عمران خان کو پاکستانی سیاست میں صف اول پر لانے کے لیے اپنا تمام تر اثر و رسوخ استعمال کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدلیہ نے پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کو قانونی حیثیت دینے، سیاسی مخالفین کو نا اہل قرار دینے والے متنازعہ فیصلے دینے اور 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی حتمی فتح کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پی ٹی آئی کو مقتدرہ کی پشت پناہی ملنے کے بعد بدترین اور کرپٹ ترین لوگ اپنی اپنی کرپشن کو چھپانے اور مزید لوٹ مار کرنے کے لیے اس میں شامل ہوتے گئے۔ یہ سیاسی خواجہ سراؤں کی جماعت 2018 میں فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں داخل ہوئی، پھر پونے چار سالہ اقتدار کے ہر قدم پر اسے فوج کی حمایت حاصل رہی، اکثر اختلاف رائے کو دبانے، اتحادیوں کو منانے اور اپوزیشن کو خاموش کروانے کے لیے فوج کی حمایت پر انحصار کرتی رہی۔ اس ناپاک اتحاد نے پاکستان کے جمہوری اداروں کو بے حد نقصان پہنچایا۔ خوف، جبر اور دھمکی کے کلچر کو فروغ دیا۔ عدلیہ نے اختیارات کے اس غلط استعمال کو روکنے کے بجائے پی ٹی آئی کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جائز قرار دیتے ہوئے مسلسل آنکھیں بند رکھیں۔

شواہد بار بار پی ٹی آئی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ملی بھگت کا واضح نشان دیتے رہے، جس کی وجہ سے کرپشن، لوٹ مار، ہیرا پھیری اور ادارہ جاتی عدم استحکام کا کلچر عام ہو گیا کیوںکہ جواب دہی اور احتساب کا خوف ختم ہو چکا تھا۔ اس گٹھ جوڑ نے پاکستانی عوام کے سیاست اور جمہوریت پر اعتماد کو بے حد کمزور کر دیا اور ملک کی معاشی اور سیاسی بنیاد کو غیر مستحکم کر دیا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سیاسی جوڑ توڑ اور 2018 کی الیکشن انجینئرنگ میں فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ جیسے فوجی حکام کا ملوث ہونا کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ اسی طرح بدعنوانی اور انتخابی دھاندلی کے واضح ثبوتوں کے باوجود پی ٹی آئی کے اقدامات کو قانونی حیثیت دینے میں عدلیہ کی مداخلت نے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا اور استثنیٰ کے کلچر کو برقرار رکھا۔

پی ٹی آئی کا دور معاشی ناکامیوں سے نشان زد تھا، جس میں آئی ایم ایف سے دوبارہ قرض لینا، سی پیک بند کرنا، خفیہ معاہدات آئی ایم ایف کے ذریعے امریکہ کے حوالے کرنا، اقربا پروری، بدعنوانی، کرپشن، نااہلی اور لوٹ مار، روپے کی قدر میں کمی، پچیس ہزار ارب کے نئے قرضے اور ملک کے نام پر لیے گئے قرضے سارے اپنی جیبوں میں بھرنا شامل تھا، جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور 25 ملین مزید لوگ خط غربت سے نیچے چلے جانے جیسے نتائج برآمد ہوئے۔

مقتدرہ نے 2022 میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور تحریک انصاف حکومت کی پشت پناہی ترک کر دی۔ نتیجتاً تحریک انصاف کی حکومت گر گئی۔ لیکن اس وقت تک یہ بدطینت ٹولہ عدلیہ، میڈیا، سوشل میڈیا، سول سوسائٹی اور جغرافیائی اور داخلی سرحدوں میں موجود فالٹ لائنز میں نفرت، تعصب، لالچ اور وطن دشمنی کی لینڈ مائنز بچھا چکا تھا۔ اس کے حکومت سے رخصت ہونے سے 9 مئی 2023 تک تحریک انصاف کا ہر اقدام وطن دشمنی اور آئین شکنی سے عبارت ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

جب نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالا تو معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر تھی اور ملک میں ہر طرف بدامنی اور لاقانونیت کے ساتھ ساتھ کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور لوٹ مار کا راج تھا۔ نگران حکومت نے دگرگوں حالات میں معاشی بحالی کا پروگرام شروع کیا، سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل (SIFC) قائم کی، روپے کی قدر مستحکم اور ڈالر کو لگام ڈالی۔ ملک میں انتخابات کروائے اور پُرامن اقتدار کی منتقلی کے بعد قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت نے سی پیک فیز 2 شروع کیا۔ مہنگائی کو 40 فیصد سے 12 فیصد پر لے آئے، ایران اور روس کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے، معیشت بحال ہونے لگی اور معاشی اشاریے مثبت ہونا شروع ہو گئے تو عین اسی وقت عدلیہ میں موجود پروجیکٹ عمران کی باقیات نے پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اس ملک دشمن پروجیکٹ عمران کو دوبارہ بحال کرنے کی آخری کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اہل وطن ایک بات یاد رکھیں کہ پروجیکٹ عمران کی مکمل تلفی تک پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ملک میں امن اور استحکام قائم ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

امن و استحکام معاشی ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ کوئی بھی قوم مستحکم سیاسی ماحول اور پرامن معاشرے کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے، بیرونی ہاتھوں نے ہمیشہ اندرونی سہولت کاروں کی مدد سے ہی پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار کیا جو ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اگر پاکستان کے 250 ملین لوگوں نے امن، استحکام، معاشی ترقی اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل تعمیر کرنا ہے، تو اسے پروجیکٹ عمران اور اس کی باقیات یعنی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بچھائی ہوئی لینڈ مائنز سے مکمل نجات حاصل کرنا ہو گی۔ یہ کام پوری قوم کے اتحاد اور تعاون سے ہی ممکن ہے۔ قوم سیاسی جوڑ توڑ اور معاشی تجربات کے ہاتھوں یرغمال بننے کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان آگے بڑھے، ایک روشن مستقبل کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی، امن اور استحکام کو یقینی بنائے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی سے خیبر تک پوری قوم متحد ہو جائے اور ریاست، عوام، منتخب نمائندے اپنی امن و سلامتی کے ضامن اداروں کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جائیں۔ احمد فراز کے الفاظ میں:

اب تو ہوں جیسے بھی حالات ہمارے لوگو

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو

آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا

اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو

اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی

میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو

کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے

خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو

محمد سجاد آہیر پیشے کے لحاظ سے یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ وہ جمہوریت کی بحالی، کمزور اور محکوم طبقات کے حقوق اور انسانی ترقی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔