یہ ایک نیا سیاسی پرینک ہونے جا رہا ہے۔ جن لوگوں پر اس ملک کے استحصال کا مبینہ الزام ہے وہی اس ملک کے استحکام کا نعرہ لگانے لگے ہیں۔ کیا انہوں نے اپنے پچھلے 4 سالہ اقتدار میں انصاف کا بول بالا کر لیا ہے کہ اب وہ استحکام کا ارادہ رکھتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے ایک سال سے اس ملک میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہی ان کی سیاست تھی۔
قومی اسمبلی میں دو چار ووٹوں کا فرق ہونے کے باوجود انہوں نے اصولی اپوزیشن کرنے کے بجائے چوک چوراہوں کی سیاست کو ترجیح دیا اور اقتدار کے حصول کی جنگ میں اپنی ہی دو صوبائی حکومتوں کو ختم کر کے انہوں نے اپنی حماقتوں سے اپنی سیاسی قبر کھودی اور ملکی امن کو داؤ پر لگا دیا۔ اپنی حقیقی آزادی کے نام اس طرح کے نعرے لگاتے ہوئے؛ 'چھین کر لیں گے آزادی'، 'تیرا باپ بھی دے گا آزادی' اور پرتشدد سیاست کرتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے پہنچے اور وہاں سے اس نئی سیاسی جماعت نے جنم لیا۔
استحکام پاکستان پارٹی کی نام نہاد قیادت اگر اصولی سیاست اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو ان کو سب سے پہلے پورا سچ بولنا ہوگا کہ کس طرح انہوں نے پچھلے 10 سالوں کے دوران سیاسی انجینیئرنگ کی اور کون کون اس میں ملوث تھا؟ ان کو کب اس سارے ماجرے کا انکشاف ہوا اور وہ کن مجبوریوں کی وجہ سے تحریک انصاف کے ساتھ رہے اور اب کن مجبوریوں کی وجہ سے پچھلی جماعت کو چھوڑ کر ایک بغیر پائلٹ کے جہاز پر سوار ہو رہے ہیں؟ 9 مئی کے واقعات میں ان کے اور ان کی جماعت کے کیا مقاصد تھے؟ انہیں ان تمام باتوں کا اعتراف کرنا ہو گا۔
اگر ان معززین کی طبع نازک پر گران نہ گزرے تو ان کے اپنے ہی دور حکومت میں ان پر لگائے جانے والے الزامات پر تو قوم سوال کرنے کی جسارت کر سکتی ہے اور نئے جذبہ سیاست کے مظاہرے سے پہلے اگر وہ پہلے والے الزامات سے بریت حاصل کر لیں تو پھر نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کا حق ان کو حاصل ہو گا۔ عوام کو ان لوگوں نے بے وقوف بنایا ہوا ہے۔ جب چاہا اپنا بوریا بستر اٹھایا اور نئے سیاسی سرائے پر جا ٹھہرے۔ کیا انہوں نے اس ملک کی زبردستی خدمت کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے؟ پچھلے 4 سالوں میں انہوں نے جس سیاسی انٹرن شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملک کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، کیا عوام وہ بھول گئے ہیں؟ جس طرح سے وہ وزرائے خزانہ بدلتے رہے ہیں اور ہماری معاشی تباہی کے لئے مالیاتی اداروں سے ماہرین امپورٹ کر کے ان کو پاکستان کی تقدیر لکھنے کے اختیارات دیتے رہے ہیں۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں اس گروہ کی ماضی کی سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ 2018 میں تو یہ جس جہاز کو اڑاتے پھرے تھے اس کے پیچھے اس ملک کی بے تاج بادشاہت تھی جس نے اس جہاز کے پائلٹ کو پورا پورا اختیار دیا ہوا تھا مگر اس دفعہ وہ بے تاج بادشاہت ان کے نخرے اٹھانے سے اپنی ساکھ کو پہچنے والے نقصان کے ازالے پر لگی ہوئی ہے اور وہ کبھی بھی عوامی اعتماد کو اتنی جلدی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے اور یہ سیاسی جادوگر اب پرانے تاثر کی بنیاد پر عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔
ویسے بھی یہ پچھلی ایک دہائی سے جس سیاسی انٹرٹینمنٹ کے عادی ہو چکے ہیں اس کو مہیا کرنا جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کے بس کی بات نہیں اور ان کی یہ سیاست ایسے ہی ہے جیسے چھپکلی کی دم کٹنے کے بعد کچھ دیر ایسے تڑپتی ہے جس سے گماں ہونے لگتا ہے کہ اس میں ابھی جان باقی ہے مگر جلد ہی وہ ٹھنڈی ہونے لگتی ہے اور کیڑے اس پر آن لپکتے ہیں۔ ان سب میں وہ صلاحیت ہی نہیں جو ایک سیاسی جماعت کو چلانے کے لئے ہونی چاہئیے۔ اگر ہوتی تو حادثاتی طور پر دوبارہ سے مقبولیت حاصل کر لینے والی جماعت تحریک انصاف کو ہی سنبھالنے میں کامیاب رہتے۔ چونکہ ان کو یہ سب کچھ محنت سے نہیں ملا تھا اس لئے ان کو اس کی قدر بھی سمجھ نہیں آئی۔
9 مئی کو جو ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ وہ ان کی نااہلیوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ انہوں نے نا صرف اپنی سیاست کا جنازہ نکالا بلکہ پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بھی خطرات سے دوچار کروا دیا۔ یہ تو اللہ کا فضل اور پاکستان آرمی کا احسان ہے کہ انہوں نے اس سازش کو اتنی تندہی اور مہارت سے کنٹرول کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ دنیا کی نمبر ون انٹیلی جنس اور صف اول کی فوجی طاقت نے ان تمام سوچوں کو حیران کر دیا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔
اگر پاکستان کمزور معیشت کے باوجود اتنی بڑی سازش کو ناکام بنا سکتا ہے تو پھر آنے والا وقت تو ہے ہی ایشیا کا جس میں پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے بنیادی مسائل بد امنی اور بد عنوانی ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام کو جنم دے کر کاروباری لوگوں کا اعتماد متزلزل کیا ہوا ہے اور اب امید ہے کہ اس پر قابو پا لیا جائے گا اور کسی کو بھی سیاست کے نام پر غیر سنجیدہ سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پچھلے سالوں کی زور آور سیاست اور اس کی سہولت کاری نے جو ماحول پیدا کیا تھا اس سے ملکی معیشت کا نقصان تو ہوا ہے مگر اس سے مفادات پرست سوچیں بھی بے نقاب ہو گئی ہیں۔ سنجیدہ اور غیر سنجیدہ سیاست کے درمیاں ایک لکیر کھنچ گئی ہے اور سوچوں اور مزاجوں کی بنیاد پر گروہ بندی سے یہ جاننا آسان ہو گیا ہے کہ کون اس ملک و قوم کے لئے مخلص ہے اور کون ایک بہروپیے کے روپ میں اس ملک کی سلامتی اور معیشت کے ساتھ کھیلنے کے درپے ہے۔
میں نے عرض کیا کہ جب بدامنی پر قابو پا لیا گیا ہے تو خوشحالی کی نوید جلد سننے کو ملے گی۔ جس طرح سے دولت پاکستان سے باہر گئی ہے اس طرح واپس بھی آئے گی مگر تھوڑا سا وقت ضرور لگے گا۔ ابھی چونکہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں لہٰذا نئی حکومت کے قائم ہونے تک کا وقت تھوڑا مشکل ہو گا اس کے بعد ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے۔
اب عوام کو حقائق سمجھتے ہوئے ماضی کے تجربات کی طرز پر کسی بھی کوشش کو ناکام بنانا ہو گا۔ یہ جو جماعت معرض وجود میں آ رہی ہے یہ ایک خاص سوچ رکھنے والوں کا ٹولہ ہے جو تحریک انصاف سے ملتا جلتا نام ہی نہیں بلکہ یہ آنے والے کل میں تحریک انصاف کی طرز پر ہی کوئی بی پلان بھی ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا اس نئے سیاسی پرینک کا آلہ کار بننے سے عوام کو محتاط رہنا ہو گا اور حقیقی جمہوریت اور اصولی سیاست کرنے والوں کا ساتھ دینا ہو گا۔ ان کو ووٹ دینا ہو گا جنہوں نے اس ریاست میں کارکردگی کے ذریعے سے خوشحالی لا کر ملک و قوم کو ریلیف دیا ہے۔
اب تاثر یہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے 9 مئی کی ذمہ دار تحریک انصاف ہی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ اس وقت تحریک انصاف کا حصہ تھے اور ان میں جو جتنا قصور وار ہے اس کا اس کے مطابق احتساب اور جزا و سزا بھی ہونی چاہئیے۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت سیاسی استحکام ہے جو اصولی سیاست سے ہی پوری کی جا سکتی ہے اور اصولی سیاست کی پہلی شرط سچ بولنا ہے۔ اگر یہ اپنی سابقہ غلطیوں بارے سچ قوم کے سامنے نہیں رکھتے تو ان کو پھر سیاست کرنے کا بھی کوئی حق نہیں اور جن لوگوں کی سیاست کی بنیاد ہی تضادات پر ہو وہ ملک و قوم کے لئے کیسے نجات دہندہ ثابت ہو سکتے ہیں؟