اکثر دوست مجھ سے یہ پوچھتے ہیں، آیا کتابوں سے موسیقی سیکھی جا سکتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید موسیقی پر کوئی اچھی کتاب لکھی ہی نہیں گئی، ایسی جسے پڑھ کر موسیقی سیکھی جا سکے۔ اگر لکھی گئی ہوتی یا اگر لکھی جائے تو شاید موسیقی سیکھنا ممکن ہو۔
اس قسم کے بھلے ہزار سوال اور ذہن میں جمع کر لیجئے، جواب ایک ہی ہے۔ موسیقی کتابوں سے نہیں سیکھی جا سکتی! اس جواب کی ضد میں ایک منطق پیش کی جاتی ہے۔ مغرب میں موسیقی کتابی شکل میں ہوتی ہے جو موسیقار پڑھ کر بجا رہے ہوتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو یہ بھاشن دیتے ہیں کہ موسیقی کتاب سے سیکھنا ممکن نہیں اور استاد کا ہونا لازمی ہے، دراصل گھرانے دار موسیقاروں کی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا کہتے ہیں۔ سوچا ایک مضمون کی صورت میں مفصل جواب دیا جائے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے موسیقی پر کئی کتابیں رٹیں۔ پلے کچھ نہیں پڑا۔ انہیں سُر تال کا گیان حاصل کرنے کے لیے استاد مسیتے خان کا شاگرد ہونا پڑا۔ کتاب پڑھ کر آپ سر کی پہچان کیسے کر سکتے ہیں؟ کیسے کھرج سے گندھار لگائیں گے؟ کیسے جونپوری کو درباری سے یا ماروا کو پوریا سے الگ کر کے دکھائیں گے جبکہ سر دونوں کے ایک ہی ہیں؟ کتاب سے موسیقی سیکھنا ایسا ہی ہے جیسے کتاب سے تیراکی، ڈرائیونگ، پینٹنگ یا ایکٹنگ سیکھی جائے۔ موسیقی سکھانے کے لیے جو کتابیں ہیں وہ اسی کو فائدہ دے سکتی ہیں جو پہلے سے سر تال کا علم رکھتا ہو۔ میرے دادا استاد قاضی ظہور الحق کی کتاب ہے 'رہنمائے موسیقی'۔ میں نے بہت سے گھرانے دار لوگوں کو دکھائی اور کہا کہ فلاں راگ کا استھائی اور انترہ مجھے بالکل اس کے مطابق نکال کر دکھا دو۔ وہ نہیں نکال سکے۔ میرے لیے نکالنا کبھی مسئلہ نہ تھا کیونکہ اس کی نکاس کا گر لکھ کر سمجھایا نہیں جا سکتا۔ نکاس آپ کو استاد ہی سکھا سکتا ہے جو میرے استاد پروفیسر شہباز علی نے مجھے سکھائی۔ نکاس غلط ہو جائے تو محرم مجرم بن سکتا ہے۔
یہ 2006 کی بات ہے۔ ہمارے امیر کبیر دوست حسن آزاد نے معروف ستار نواز استاد شاہد پرویز کو بھارت سے پاکستان مدعو کر رکھا تھا۔ ہم لوگ لاہور جم خانہ میں تھے۔ لاہور کے مشہور موسیقار پرویز پارس طبلے پر اپنی کتاب کی دس کاپیوں سمیت شاہد بھائی سے ملنے نازل ہوئے۔
'خان صاحب یہ کتاب دیکھیے۔ اس میں بہت پرانی طبلے کی گتیں پرنیں، چکردار اور تہاہیاں ہیں۔ یہ میں نے لکھی ہے'۔ پارس نے کتابوں کا ڈھیر شاہد بھائی کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھتے کہا۔ شاہد بھائی نے کتابوں کی جانب دیکھے بغیر کہا؛ 'کوئی گت سنائیے!' اب پارس کی سٹی گم۔
'وہ تو مجھے یاد نہیں!'
'تو پھر آپ نے کتاب کیسے لکھ لی؟ چلیں کوئی قاعدہ (بہت ہی بنیادی چیز طبلے میں) ہی سنا دیں!'
'وہ بھی یاد نہیں!'
'تو پھر خاک کتاب لکھی آپ نے!' شاہد بھائی نے پارس کو جھاڑ پلاتے کہا اور پھر جو شروع ہوئے تو سب واہ واہ کرنے لگے۔ درجنوں طبلے کی پرانی کمپوزیشنز سنا ڈالیں، بڑھت اور تہائی کے ساتھ حالانکہ وہ ستار نواز ہیں۔ طبلہ نواز نہیں! پارس کی شرمندگی دیدنی تھی۔ اتنی بھی تمیز نہیں کہ بڑے اور حقیقی خاں صاحب سے کیسے ملتے ہیں! شاہد بھائی نے وہ دس کی دس کتابیں ڈسٹ بن میں پھنکوا دیں۔ پارس اس امید میں تھا کہ شاہد بھائی واہ واہ کریں گے اور یہ بعد میں مراثیوں کے بیچ بیٹھ کر شیخی بگھارے گا۔
آپ حیران ہوں گے یہ جان کر کہ اس کتاب پر تعریفی سند استاد طافو خان کی تھی۔ وہ طافو جو اپنے علاوہ کسی کو نہیں مانتا۔ یہ کہتا پھرتا ہے کہ کوئی بھی مجھ سے مقابلہ کر لے۔ مقابلے کے لیے جج کسے مانے گا؟ طافو نے ایک دن مجھے خود ہی بتا دیا کہ وہ کتنا عاجز بندہ ہے۔ کوئی بھی طبلے پر کتاب لکھ کر لے آئے اور اس سے تعریفی دیباچے کی فرمائش کر دے تو وہ دل نہیں توڑتا۔ لکھ دیتا ہے! اس نے پارس کا ہی ذکر کیا یہ بتا کر کہ طبلہ کی تو اسے الف ب تک کا علم نہیں۔ میرے پاس آیا تعریفی نوٹ کے لیے تو میں نے مایوس نہیں کیا۔
میں نے طبلے کی کئی کمپوزیشنز انٹرنیٹ سے لیں مگر جب طبلے پر نکالنے بیٹھا تو وہ سم پر نہ آئیں! اب یا تو ماترہ غائب ہے یا فاصلہ۔ مجھے اپنے استاد سے ہی رجوع کرنا پڑا۔ بہت سمجھدار گرو۔ ان کا نام پنڈت تمیر برن چکرورتی ہے۔ کلکتہ میں ہیں اور فرخ آباد گھرانے سے ہیں۔ انہوں نے مجھے پڑھنت بھیجی تو سم پر آ گئی۔ اب مسئلہ وہ اوپر نہ جائے! اب اسے اوپر کیسے چڑھایا جائے۔ تو ظاہر ہے مسئلہ نکاس کا تھا۔ چوگن تو دور کی بات، دوگن میں ہی نہیں جا رہی۔ بولوں کی نکاس کو تبدیل کیا گرو کی مدد سے تو وہ چوگن میں بھی بج گئی۔ تو ثابت ہوا کہ کتاب سے تو یہ کام کرنے والے بھی ہمیشہ استفادہ نہ کر سکے۔
مغرب والے موسیقی بجا لیتے ہیں کتاب پڑھ کر! ارے بھئی وہ نوٹیشن ہے سروں کی۔ سر تو ساری دنیا میں 12 ہی ہیں۔ نوٹیشن ہر موسیقی کی ہو سکتی ہے۔ مگر بجائے گا وہی جسے سر کا علم ہو۔ نوٹیشن کہہ رہی ہے کہ گندھار سے سیدھا دھیوت لگاؤ۔ کیسے لگائیں گے اگر سر کا ہی نہیں پتہ؟ سر تو استاد سکھائے گا۔ نوٹیشن اٹنگ سروں کی ہو سکتی ہے مگر ہماری موسیقی مغرب سے بہت مختلف ہے۔ ہمارا تو سارا گانا بجانا شرتی میں ہے۔ آکار میں ہے۔ مینڈھ، تان، گمگ، مرکی، زمزمہ، کھٹکے اور بل میں ہے۔ اور شرتی تو خوفناک چیز ہے۔ اگر درست نہ لگے تو بے سرا کر دیتی ہے۔ مزید براں، شرتی پر ٹھہرا نہیں جا سکتا۔ تو شرتی کو لکھا کیسے جا سکتا ہے؟ مغرب والے بھی شرتی اور مینڈھ کا استعمال کرتے ہیں مگر کم۔ بقول حسن آزاد جو عمدہ ستار نواز بھی ہیں اور مغربی موسیقی کی باریکیوں کو بھی سمجھتے ہیں، مغربی نوٹیشن میں بھی کمپوزر مینڈھ کو لکھتے نہیں بس اشارہ دے دیتے ہیں کہ اس حصے کو vibrate یا glide کرنا ہے۔ اسے ہر گانے بجانے والا اپنے حساب سے اپلائی کر دیتا ہے۔ دوسرے ہماری موسیقی تو لکھی جا ہی نہیں سکتی۔ امیر خان صاحب کا ہر باگیشری دوسرے سے مختلف ہے پر ہے باگیشری اور صاف پہچانا جاتا ہے۔ ہماری موسیقی میں سر کا لگاؤ، رچنہ، گت، جھول، لے راگ کی شکل دکھاتی ہے مگر سنگھار بدل کر رکھ دیتی ہے۔
آسان سی مثال دیتا ہوں۔ مہدی حسن صاحب نے 'رنجش ہی سہی' سینکڑوں بار گائی۔ سب میں مختلف بہلاوے ہیں۔ ہے ایمن ہی مگر اثر مختلف ہے۔ کلاسیکل میوزک میں اس کی بہترین مثال استاد امرت خان کی راگیشری کی بندش ہے جو درت لے کے ابتدائی درجے کی ہے۔ شاہد پرویز نے اسی بندش کو سلو ٹیمپو میں بجایا اور اسے ایک نئی روح دی۔ مجھے دونوں بندشیں پسند ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے ہمارا میوزک لکھا نہیں جا سکتا۔ بس سکیل کی حد تک ممکن ہے۔
خواجہ خورشید انور بہت بڑا نام دنیائے موسیقی میں پر ایک حماقت کر بیٹھے جس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ یہاں خداؤں کو چیلنج کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ گستاخی میرے جیسے احمق کرتے ہیں۔ انہوں نے گھرانوں کی گائیکی کے نام سے کتاب چھاپ دی۔ ہر راگ کی آروہی اور امروہی بیان کی مگر سر میں گا کر نہیں زبانی پڑھ کر جیسے کوئی بچہ کلاس روم میں سبق پڑھتا ہے۔ اس سے کیا خاک سیکھی جائے گی موسیقی؟ وہ تو توکل خان کے شاگرد تھے۔ کیوں نہ گایا استھائی اور انترہ یا آروہی اور امروہی یا سرگم؟ چالیس کیسٹیں تو ریکارڈ کر دیں صرف رٹو طوطے کی طرح سر پڑھنے کے لیے؟ اگر سا رے ما دھا پا نی سا بول رہے ہیں تو مدھم، دھیوت، رکھب، کھرج محسوس کیوں نہیں ہوتا؟ وجہ صرف اتنی ہے کہ گلے میں سر نہیں تھا۔ تھیوری سیکھ لی تھی۔ سر کی پہچان بھی سیکھ لی تھی مگر سر لگا نہیں سکتے تھے۔ سر کی پہچان اور چیز ہے اور سر لگانا اور۔ کتاب نہ سر کی پہچان سکھا سکتی ہے نہ سر لگانا۔ خواجہ صاحب کا دعویٰ یہ تھا کہ اس پروجیکٹ سے موسیقی سیکھی جا سکتی ہے۔ کتنے لوگوں نے سیکھی؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گھرانے دار کسی کو نہیں سکھاتے۔ اگر سکھاتے تو ان کی اپنی اولادیں بہت اچھا گا رہی ہوتیں۔ وہ نذرانے، تحفے اور پیسہ بٹورتے ہیں۔ اس معاملے میں ان میں اور کوٹھے کی نائکہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مگر سب ایسے نہیں ہوتے۔ ذاکر بھائی کے والد استاد اللہ رکھا نے ایک دنیا کو طبلہ سکھایا۔ ان کے بہت سے شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور نام کما چکے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں بھارتی خاتون طبلہ نواز انورادھا پال ہیں۔ لندن میں شہباز حسین ہیں۔ انڈیا ہی میں یوگیش شمسی ہیں۔ یہ ٹاپ کلاس طبلہ نواز ہیں۔ اس سے نیچے والی تہہ میں تو سینکڑوں ہیں۔ استاد شوکت حسین گھرانے دار تھے۔ انہوں نے بہت شاگرد پیدا کئے۔ ساری دنیا کو جس نے ہلا کر رکھا ہوا ہے۔۔تاری خان۔۔وہ شوکت صاحب کا ہی شاگرد ہے۔ پنڈت شیو کمار شرما نے بہت شاگرد تیار کیے۔ استاد شاہد پرویز کے بے شمار شاگرد ہیں۔ قابل ذکر نام شھبرانیل سرکار کا ہے۔ لیکن ایسے عظیم لوگ تو بس گنے چنے ہی ہیں۔ اتائیوں نے البتہ کھلے دل سے سکھایا۔ میرے استاد اردو کے پروفیسر اور موسیقی میں اتائی ہیں۔ ایسے خطرناک اتائی کہ گھرانے دار سنبھل کر بیٹھتے ہیں ان کے ساتھ۔ ایک دفعہ ایک مراثی طبلیہ ان کے ساتھ بہت ہی 'شوخا' ہو رہا تھا۔ اسے بھوپالی کی سرگم میں ایسا رگڑا کہ سم ہی نہ ملا۔ یہ سرگم قاضی صاحب کی ہی بنائی ہوئی تھی اور 'رہنمائے موسیقی' میں موجود ہے۔ شہباز بھائی پورے پاکستان میں اکیلے ہیں جو ہارمونیم پر مکمل کلاسیکل موسیقی پیش کرتے ہیں۔ اب تو گھرانے داروں کے بچے ان سے سیکھتے ہیں۔ اور یہی حال انڈیا میں بھی ہے۔ سنہیتا نندی ایک اتائی ہیں۔ بڑے بڑے گھرانے داروں کے بچے اب سنہیتا کے شاگرد ہیں۔ ان کا یہ بھیم پلاسی مجھے تو کسی اور ہی جہاں میں لے جاتا ہے!
شاید بری لگے بات مگر سچ یہ ہے کہ موسیقی سیکھنی ہو تو ہندو سے سیکھیں۔ مسلمان چھپائے گا، ہندو بتائے گا اور سمجھائے گا بھی! اس کی مثال میرے اپنے گھرانے میں ہے۔ قاضی صاحب ہر مسلمان استاد کے پاس سیکھنے گئے۔ کسی نے نہ سکھایا تو پنڈت کرشنا راؤ شنکر پنڈت جی کے ودیالے میں داخلہ لیا۔ پنڈت جی گوالیار گھرانے سے ہیں۔ ان کی پوتی میتا پنڈت کمال کی گائیکہ ہیں۔
پنڈت جی نے لاکھ جتن کر کے خدمتیں کر کے مسلمانوں سے موسیقی سیکھ کر بھارت کے ہر بڑے شہر میں میوزک ودیالے قائم کیے۔ ایک لاہور میں بھی تھا۔ یہاں موسیقی کی تعلیم باقاعدہ نصاب تیار کر کے دی گئی۔ یہی نصاب مجھے بھی ملا اپنے استاد سے۔ کمال کا نصاب ہے۔ مگر اس سے موسیقی استاد کے بغیر نہیں سیکھی جا سکتی۔ بات سمجھ آ جائے تو پھر سیکھنا آسان ہے۔ مگر مجھے معلوم ہے سرمد صہبائی جیسے pro-mirasi لوگ اس بات کو نہیں مانیں گے۔ وہ یہی راگ الاپتے رہیں گے کہ نہیں جی جتنا مرضی ریاض کر لو، سر میں وہ رچاؤ ہی نہیں آئے گا جو مراثی کی آواز میں ہے۔ اس بات پر میرا اور سرمد کا شدید اختلاف رہتا ہے۔ وہ مجھ سے کہتا ہے فلاں استاد نے کہا کہ مجھے گندھار سے پنجم لگا کر دکھاؤ۔ میں نے سرمد کو لگا کر دکھا دیا۔ پھر بھی نہیں مانا۔ کہا جی اس طرح تو سب ہی لگا لیتے ہیں۔ یہ فضول منطق ہے۔ میں نہیں مانتا۔
ہمارا دوست اسد قزلباش ایسا سرود بجاتا ہے کہ بڑے سے بڑا استاد اگر آڈیو ریکارڈنگ سن لے تو بتا نہیں سکتا کہ امجد علی بجا رہے ہیں یا اسد۔ شاہد پرویز جیسا استاد بھی دھوکہ کھا گیا! اسد تو 100 فیصد اتائی ہے۔ پہلے سے گٹار اور وائلن بجاتا تھا۔ جینئس تھا۔ امجد علی کا عاشق ہوا تو سب کچھ چرا لے گیا۔ آڈیو ریکارڈنگز سے ہی سرود بجانا سیکھ گیا۔ جوے کی تکنیک گٹار سے اور سر کی وائلن سے لے لی۔ دونوں کو یکجا کر کے ایسا سرود نواز بنا کہ دنیا مانتی ہے۔ اسد کی اعلیٰ ظرفی ملاحظہ ہو۔ میرے بھائی کے پاس سردو تک نہ تھا۔ اسے اپنا سرود دیا اور سکھایا۔ اب میرا بھائی چند ایک راگ بجا لیتا ہے اور میں اس کا ساتھ طبلے پر دے دیتا ہوں۔ ایسا جذبہ مراثی کے پاس کہاں؟
تاری کا بھائی جھاری میرا جگری دوست۔ میں طبلہ سیکھنے اس کے پاس گیا۔ نہیں سکھایا مجھے۔ الٹا میرا ہاتھ خراب کر دیا۔ پھر میں کلکتے والوں کے پاس گیا۔ پہلے تو انہوں نے میرے ہاتھ کی پوزیشن پر کافی محنت کی۔ پھر کمپوزیشنز سکھائیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور بس میوزک سمجھنے کی حد تک ہے۔