گونگے کی رمز گونگے کی ماں ہی جانے

گونگے کی رمز گونگے کی ماں ہی جانے
اردو نیا دور ٹی وی، ویب سائٹ کے نام سے خبر کی دنیا میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اسی نام سے ان کا فیس بک پیج بھی ہے۔ میرے ایک بہت ہی اچھے دوست اور تجربہ کار، سردوگرم چشیدہ سینئر صحافی اس ویب سائٹ کے اہم ذمہ داران میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ایک دو مرتبہ حکم بھی دیا کہ میں یہاں بھی لکھا کروں لیکن سستی آڑے آتی رہی۔ لیکن آج سے کوئی چار روز قبل یعنی 10 اکتوبر کو ان کے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ یہ ویڈیو اکبر ایس بابر صاحب کی تحریک انصاف کے ایک کیس کے بارے میں گفتگو پر مشتمل ہے، جو فارن فنڈنگ کے حوالے سے ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں زیر سماعت بھی ہے۔



چونکہ اس کیس کے حوالے سے تمام تر تفصیلات میری نظر میں ہیں اور میں ابھی تک پیش آئی تمام تر صورتحال سے ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔ اس لیے مجھے اس ویڈیو میں اکبر ایس بابر صاحب کی باتیں حقائق کے برعکس محسوس ہوئیں۔ بلکہ اگر میں کہوں کہ اکبر ایس بابر صاحب نے جو کچھ بھی کہا اس کی تشریح پنجابی کا ایک محاورہ بجا طور پر کرتا ہے، میں یہ محاورہ اردو میں ترجمہ کر کے پیش کرتا ہوں کہ

’گونگے کی رمز گونگے کی ماں ہی جانے‘

تو جناب نے بھی جو کچھ کہا وہ کسی بھی حقائق سے واقف شخص کے لیے بے معنی آں اُوں سے زیادہ نہیں۔ میں اس کیس کے حوالے سے کچھ تفصیلات آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ آپ بھی اور اردو نیا دور ٹی وی ویب سائٹ کے ذمہ داران بھی حقیقت حال سے روشناس ہو سکیں۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اس کیس میں استعمال کی جانے والی فارن فنڈنگ کی اصطلاح درست نہیں، اس اصطلاح کو سیاسی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ فارن فنڈنگ کا مطلب ہے سیاسی جماعت کو بیرون ملک سے کوئی حکومت فنڈ کر رہی ہو جبکہ ممنوع فنڈ وہ ہوتا ہے جو کسی کمپنی سے لیا جائے، جو واپس حکومت پاکستان کو جمع کرانا پڑتا ہے۔

کیس کی ابتدا ایسے ہوئی کہ 2014 میں اکبر ایس بابر صاحب نے ویب سائٹ سے غیرمصدقہ فوٹو کاپیاں لے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کیس دائر کیا، جس کے جواب میں تحریک انصاف نے تفصیلات کے چار والیوم الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان فی الفور ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خاموشی اختیار فرما لی۔ آٹھ ماہ تک کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہوئی، نہ ہی تحریک انصاف کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کو پرکھا گیا اور پھر اچانک 8 ماہ کی نہ سمجھ آنے والی تاخیر کے بعد 12-03-2018 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک عدد سکروٹنی کمیٹی تشکیل دے دی اور تحریک انصاف کو کہا گیا کہ اس کمیٹی کے تحت ٹی او آرز باہمی گفت و شنید سے ہی وضع کیے جائیں گے۔ لیکن، ہوا یہ کہ ٹی او آرز تحریک انصاف سے بالا بالا بن گئے، اور تحریک انصاف کو تب معلوم ہوا جب یہ ٹی او آرز اسے تھما دیے گئے۔

اس پورے قضیئے کو سمجھنے کے لیے سپریم کورٹ میں حنیف عباسی کیس کا فیصلہ سننا ضروری ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ حنیف عباسی کیس میں بھی بعینہ وہی فوٹو کاپیاں استعمال کی گئی تھیں جنہیں بنیاد بنا کر اکبر ایس بابر نے کیس کیا۔ حنیف عباسی کیس کے فیصلے کے چار اہم نکات ملاحظہ ہوں:

الف۔ الیکشن کمیشن بذات خود کوئی عدالت ہے نہ ہی کوئی ٹریبیونل۔



یہ بھی پڑھیے: تحریک انصاف کے خلاف بیرونی فنڈنگ کیس سے متعلق تمام حقائق







ب۔ شکایت کنندہ کی فراہم کردہ معلومات مصدقہ اور درست ہونی چاہئیں اور اس کا مقصد پارٹی اور اس کی لیڈرشپ کو ہراساں کرنا نہ ہو۔

ج۔ الیکشن کمیشن تمام دستاویزات کو منصفانہ، شفافیت کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور غیر جانبداری کے ساتھ جانچ کرے۔

د۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان جاری کرنے سے پہلے اس کے پانچ سال پر مشتمل دستاویزات کی جانچ کرے۔

یہاں بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ آخر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلے کے چار نکات پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟ دوسرا سوالیہ نشان یہ ہے کہ سکروٹنی کمیٹی نے اپنے ٹی او آرز میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طریقہ کار وضع کیا تھا، تو پھر بعد میں کمیٹی کی کارروائی کے دوران سکروٹنی کمیٹی اپنے ہی ٹی او آرز اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی منحرف کیوں ہوئی؟

اس کیس میں ایک مضحکہ خیز چیز لفظ ’فیک اکاؤنٹ‘ کا استعمال ہے۔ فیک کا مطلب تو سیدھا سیدھا جعلی ہوتا ہے۔ گویا فیک اکاؤنٹ کا لفظ استعمال کر کے حقائق کو مسخ کرنے کی اور کیس کو غلط راستے پر ڈالنے کی دانستہ ایک بھونڈی کوشش کی گئی۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ مختلف اوقات میں جب کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ کھولا یا بند کر دیا جاتا ہے، اس کے بعد جب بھی کسی وقت آپ بینک سے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کریں گے تو بینک آپ کو تمام اکاؤنٹس کی تفصیلات مہیا کرتا ہے اس سے قطع نظر کہ اکاؤنٹ ماضی میں کسی وقت بند کردیا گیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکبر ایس بابر صاحب نے بغیر کسی تحقیق کے بند کیے گئے اکاؤنٹس کو فیک اکاؤنٹس کا نام دے کر غلط اور جھوٹا تاثر قائم کرنے کی کوشش کس مقصد کے تحت کی۔ مذکورہ اکاؤنٹس کی فہرست میں اگر کوئی سب اکاؤنٹ کھولا اور بغیر کسی ٹرانزیکشن کے بند کر دیا گیا تھا تو اس کو فیک اکاؤنٹ کا نام دینا صرف ایک جھوٹ اور بہتان ہے۔

یہاں اکبر ایس بابر صاحب بھول گئے کہ ان اکاؤنٹس میں سے کچھ اکاؤنٹس کے سگنیٹری خود اکبر ایس بابر بھی رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی فراہم کردہ تفصیلات اور دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف نے کبھی بھی کسی بینک اکاؤنٹ کو پوشیدہ نہیں رکھا، اور نہ ہی آج کل کے دور میں کوئی بینک اکاؤنٹ پوشیدہ رکھنا ممکن ہے۔

تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی کو بہت ساری درخواستیں دیں جن میں بار بار یہ کہا گیا کہ:

الف۔ اکبر ایس بابر کی شکایت میں دی گئی دستاویزات کی تصدیق کی جائے۔

ب۔ کمیٹی کی کارروائی کے دوران اکبر ایس بابر نے پارٹی اور اس کی لیڈرشپ کو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بدنام اور ہراساں کرنے کی جو کوشش کی اس پر ایکشن لیا جائے۔

ج۔ سکروٹنی کمیٹی نے ہماری فراہم کردہ تفصیلات کو چیک کرنے کے بجائے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بینکوں کو براہ راست خط لکھ دیا۔ اس پر بھی قرار واقعی کارروائی کی جائے۔

لیکن کسی ایک پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ ایک بنیادی اور اخلاقی بات ہے کہ جب کوئی مقدمہ زیر سماعت ہو تو خصوصی طور پر مقدمے کے دونوں فریق اس کے بارے میں میڈیا کے کسی بھی شعبے پر گفتگو نہیں کرتے تاکہ فیصلہ اس سے متاثر نہ ہو۔ لیکن اکبر ایس بابر صاحب مسلسل اس غیر اخلاقی حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور انہیں روکا بھی نہیں جارہا۔ میں نے بطور ایک صحافی حقائق آپ کے سامنے رکھ چھوڑے ہیں اور افسوس کہ یہ تمام حقائق ایک بہت بڑے سوالیہ نشان کی زد میں ہیں۔

زمزمۂ حق