مملکتِ خداداد میں آوازیں دبانے کا سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جمعہ کی شب ایک طرف تو پنجاب کے شہر دینہ میں انصاف لائرز ونگ کے صدر محمد نوید چودھری کی جانب سے سینیئر صحافی اور پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کروایا گیا تو دوسری طرف کراچی میں ایک اور ایف آئی آر میں ایکسپریس ٹریبیون سے تعلق رکھنے والے صحافی بلال فاروقی کے خلاف یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنی ٹوئیٹس اور سوشل میڈیا پوسٹس میں پاکستان اور اس کے اداروں کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں جو دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
ابھی ان مقدمات کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ صحافی اسد علی طور پر بھی ایک پرچہ درج کروا دیا گیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ ایف آئی آر کسی اور نے نہیں بلکہ لال مسجد سے تعلق رکھنے والے حافظ اہتشام نے درج کروائی جو کہ خود پاک فوج کے خلاف برسرِ پیکار رہی ہے۔
اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ممتاز صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ’یہ کمپبنی نہیں چلے گی‘ کی کاپیاں بازاروں سے غائب ہو گئی ہیں۔ کتاب کے سرورق پر بنے کارٹون میں عمران خان جنرل باجوہ کے پیروں میں بیٹھے ہیں جب کہ ملک کے دیگر سیاسی لیڈر کھڑکی سے یہ منظر للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
سہیل وڑائچ کی کتاب حال ہی میں ساغر پبلیشرز نے شائع کی تھی۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ریاست اور حکومت میں موجود چند حلقوں کو اس کتاب کے مرکزی پوسٹر اور اس کتاب کے عنوان سے اعتراض تھا جس کے بعد سہیل وڑائچ صاحب نے اس کا مرکزی پوسٹر اور نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ لاہور کے تمام کتاب گھروں سے اس کتاب کی کاپیاں ضبط کس نے کیں؟ تو اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات ضرور موجود ہیں کہ کاپیاں ضبط کی گئی ہیں لیکن اس پر ہم وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ کتاب کس نے ضبط کی لیکن حکومت تو ہر وقت ایک صفحے کا دم بھرتی ہے تو پھر ہم تو سوال حکومت سے ہی کریں گے۔
یاد رہے کہ ساغر پبلیکیشنز سے شائع ہونے والی یہ کتاب دراصل سہیل وڑائچ کے کالمز کا ہی مجموعہ ہے اور گذشتہ دو سالوں کے درمیان لکھے گئے ان کے کالموں میں سے کچھ منتخب کالم اس کتاب میں شائع کیے گئے ہیں۔ اپنی کتاب کے دیباچے میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ وہ پاکستان کی طاقت ور شخصیات سے متعلق اس لئے لکھتے ہیں کیونکہ عوام ان شخصیات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس کتاب کی ضبطگی کے حوالے سے صارفین نے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار پر حملہ اور سنسر شپ قرار دیا۔ یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کتاب سے متعلق سہیل وڑائچ صاحب کو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ سہیل وڑائچ نے یہ کتاب پڑھتے ہوئے اپنی ایک تصویر ٹوئیٹ کی تھی جسے کچھ عرصے کے بعد تلف کر دیا گیا۔
جہاں ایک طرف پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب یہ دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد ہے، بلکہ اس قدر آزاد ہے کہ برطانوی میڈیا کی آزادی بھی اس آزادی کے آگے ہیچ ہے۔ دوسری جانب آئے روز ملک میں کتابوں پر پابندیاں لگتی رہتی ہیں۔ صحافیوں پر پرچے درج کروائے جاتے ہیں اور کچھ کو تو اغوا بھی کیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے پنجاب میں متعدد کتب پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کیمبرج کی بیالوجی کی کتاب میں سے تولید کا موضوع بھی حذف کروایا گیا۔ عالمی شہرت یافتہ محقق لیسلی ہیزلٹن کی اسلام پر لکھی کتب پر پابندی لگائی گئی۔
مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اسلام آباد میں ایک سکول کے باہر سے اغوا کر لیا گیا جہاں وہ اپنی اہلیہ کو لینے کے لئے گئے تھے۔ مطیع اللہ جان کے اغوا پر دنیا بھر میں فوری طور پر شور مچ گیا، چند غیر ملکی سفارتکاروں نے بھی ان کے اغوا پر تشویش کا اظہار کر دیا تو مطیع اللہ تو گھر واپس آ گئے لیکن ملک کے سینیئر صحافی ان سفیروں کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر ضرور سیخ پا ہوتے رہے، ٹوئٹر پر ان کو خوب سخت سست بھی سنا دیں۔ حال ہی میں احمد نورانی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک خبر شائع کی جس میں انہوں نے سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ پر مبینہ کرپشن کے الزامات لگائے تو انہیں اے آر وائے نیوز پر ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ صحافیوں پر غداری کے پرچے اس کے علاوہ ہیں۔ اور اب سہیل وڑائچ کی کتاب کی ضبطگی۔
یہاں دو باتیں کہنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے ٹائٹل پر جو کارٹون بنا ہوا ہے، اس سے کہیں زیادہ سخت کارٹونز دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں اور آزادی اظہار کی مکمل اجازت دی جاتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ کتاب کا سرورق، جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے، تبدیل کر کے کتاب دوبارہ عوام کے پڑھنے کے لئے دستیاب ہو جائے گی۔ اصل مسئلہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کی وجہ سے ایسے کارٹونز اور ایسی کتابیں لکھی اور چھاپی جاتی ہیں۔ جب تک زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے، کتاب کے سرورق، اس کے متن یا اس کے چھپنے اور نہ چھپنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سہیل وڑائچ کی کتاب کے سرورق پر ایسی کوئی بات نہیں ہے جو پہلے سے عوام میں رائج نہ ہو۔ اس لئے کتاب اور اس کے سرورق سے زیادہ اہمیت حقائق کو دینی چاہیے اور اگر یہ آپ کے لئے ناپسندیدہ ہیں تو کیوں نہ ان کو تبدیل کرنے کی سعی کی جائے؟