جج ارشد ملک کو تو گھر بھیج دیا گیا مگر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ نواز شریف کو سزا کس کے کہنے پر دی ؟ بلکہ نواز شریف کو ہی دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دے دیا؟
مقدمہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جج کے اعترافِ جُرم کے بعد سزا کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اگر سزا ہی قائم نہ رہتی ہو تو واپسی کیسی ، گرفتاری کیوں ؟
بتاؤ کسی ایک کا نام جس کے لیے ایجنسیز پر مشتمل JIT بنی ہو ، جس کے لیے نیب ریفرنسز دائر کرنے کا حکم جاری ہوا ہو، جس کے لیے مانیٹرنگ ججز لگائے گئے ہوں ، جس نے بیٹی سمیت عدالتوں میں ۱۵۰سے زائد پیشیاں بُھگتی ہوں؟
جو جیل کی کال کوٹھری میں جانے کے لیے اپنی 47 سالہ رفیقِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر ، اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹنے وطن واپس آ گیا ہو اور قانون کے آگے پیش ہو گیا ہو۔ ایسے ہوتے ہیں مفرور اور اشتہاری ؟ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح معزز ججز بھی دباؤ میں ہیں ،ان کے فیصلے کہ رہے ہیں کہ وہ دباؤ میں ہیں مگر کیا معزز جج حضرات کو اس قسم کے عدلیہ دشمن واروں کے سامنے دیوار نہیں بن جانا چاہیے؟
اور کیا دوسرے معزز ججز کو جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرح انتقام کا نشانہ بننے سے بچانا نہیں چاہیے ؟اگر معزز جج صاحبان نے آج دباؤ کے خلاف سٹینڈ نہ لیا تو یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک نہیں رکے گا بلکہ ہر وہ جج جو آئین اور قانون پر چلے گا اس ظلم و انتقام کی زد میں آئے گا۔ معزز چیف جسٹس نے خود فرمایا کہ دباؤ کا شکار ججز عوام کو انصاف نہیں دے سکتے،ہمارے نظام انصاف کے بارے میں اس سے بڑی گواہی کیا ہوگی؟عوام تو کچھ عرصہ اور ناانصافی بھگت لیں گے لیکن معزز جج صاحبان کو بیرونی دباؤ سے کب اور کیسے نجات ملے گی؟
جناب چیف جسٹس صاحب ! کیا آپ اس بیرونی دباؤ کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے کہ کون انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور کس کے سامنے جج صاحبان بے بس ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی پر رک جائے گا؟
دباؤ اور جبر انتظار کرنے سے نہیں ڈٹ کر مزاحمت کرنے سے ختم ہوتے ہیں۔ محترم چیف جسٹس صاحب ! یہ تکلیف دہ سفر کب تمام ہو گا؟ نظامِ انصاف کو اپنے مقام تک پہنچنے کے لیئے کتنے بےگناہ قومی رہنماؤں اور آئین، قانون اور انصاف پر چلنے والے معزز ججوں کی قربانی چاہیے ہو گی ؟ معزز چیف جسٹس صاحب! نواز شریف نے پہلے بھی اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور آج بھی جب عدلیہ کو دباؤ کا سامناہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عدلیہ کو جو بھی دباو میں لانے کی کوشش کرے گا، ہم ہر قیمت پر اس کا راستہ روکیں گے، انشاءاللّہ!