انیسویں صدی کے وسط میں نیو یارک شہر میں ایک قیامت برپا ہوئی۔ جس کے نتیجے میں لگ بھگ 8 ہزار شیر خوار بچے ایک سال میں ملاوٹ شدہ دودھ کے استعمال سے دم توڑ گئے۔ اس دور کے ڈاکٹرز یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ دودھ میں زہر کہاں سے آیا اور ہیضہ کی یہ کونسی شکل ہے جسے رائج الوقت ادویات ٹھیک کرنے سے قاصر ہیں۔ اسے تاریخ کا بد ترین اسکینڈل ءSwill Milk Scandal 1850 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اس زمانے میں ملاوٹ کی بد ترین مثال تھی۔
دودھیل جانور رکھنے والے بیشتر افراد نے زیادہ دودھ اور زیادہ منافع حاصل کرنے کے لالچ میں شراب خانوں کے ضائع شدہ مواد (Swill) جو کہ نرم حالت میں تھا اس پر اپنے جانوروں کو پالنا شروع کر دیا تھا۔ اس سے جانوروں کے دودھ دینے کی صلاحیت پندرہ سے بیس گنا بڑھ گئی۔ اس کے کھانے سے جانوروں کے جسموں پر چھالے اور زخم بن گئے تھے۔ اس قسم کے چارے پر حاصل ہونے والا دودھ نیلگوں رنگ کی جھلک دیتا تھا۔ جسے سفید بنانے کے لئے ان وحشیوں نے چاک، آٹا، انڈے اور پلاسٹر آف پیرس جو کہ سفید رنگ کا ہوتا ہے ملانا شروع کر دیا۔ یہ اسکینڈل سب سے پہلے فرینک لیسلی Frank Leslie نے 1858 میں بے نقاب کیا۔ وہ مقامی اخبار کا نمایندہ تھا جس نے بڑی جانفشانی سے تحقیق کر کے ذمہ داران کو سزا کے کٹہرے میں کھڑا کیا تھا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دودھ بنیادی طبعی خواص کی بدولت ایک مکمل متوازن غذا کے ساتھ ساتھ ایک مثالی غذا بھی ہے۔ اس کی بناوٹ میں پروٹین، کیلشیم، وٹامنز، منرلز کے علاوہ کئی قسم کے اعلیٰ غذائی اجزا حصہ لیتے ہیں۔ اس کا استعمال ہڈیوں کی مضبوطی سے لے کر تمام زندگی کے افعال کو سر انجام دینے کے لئے از حد ضروری ہے۔ بچوں سے لے کر بالغ افراد ہر ذی روح کو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے اسکی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی ریاست میں اس کا پیداوری نظام دنیا کے چوتھے نمبر پر مانا جاتا ہے۔ یعنی امریکہ، چائنہ اور انڈیا کے بعد سب سے زیادہ دودھ اور دودھ کی پراڈکٹ پاکستان میں بنتی ہیں۔ اور اسے دوسرے ممالک کو بیچا بھی جاتا ہے۔ اس لئے کچھ پڑھے لکھے لوگ اسے "وائیٹ گولڈ" یعنی "سفید سونا" بھی کہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کہ دوسرے ممالک کے درمیان اسکی تجارت کا گوالوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جس کی وجہ سے وہ اس سفید دودھیا محلول کو کئی قسم کی کیمیائی آلودگی سے تر کر دیتے ہیں۔ جانوروں کی رہائشی کالونیاں شہر سے دور بنائی جاتی ہیں۔ اس لئے شہروں میں رہنے والے رہائشیوں تک اس کی ترسیل سے پہلے یہ کئی قسم کی اذیت سے گزرتا ہے۔
مثال کے طور پر وہ حضرات جو کچا دودھ مختلف جگہوں سے حاصل کرتے ہیں وہ یا تو آزادانہ طور پر اسے حاصل کر کے بیچتے ہیں یا پھر ان کے کسی بڑے دودھ اکٹھا کرنے والے یونٹس سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ یہ کچے دودھی دودھ حاصل کرنے کے بعد درجہء حرارت کے پیش نظر اس میں حسب ذائقہ برف اور دودھ کو زیادہ کرنے کے چکر میں پانی ملا دیتے ہیں یا میں یوں کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ پانی میں دودھ ملا دیتے ہیں۔ پانی میں دودھ یا دودھ میں پانی کی سمجھ تو کسی حد تک آتی ہے۔ لیکن زیادہ منافع حاصل کرنے کے چکروں میں یہ زہریلے کیمیکل جیسے یوریا، فارملین ہائیڈروجن پر آکسائیڈ وغیرہ کا بھی تڑکا لگا دیتے ہیں۔ جب یہ دودھ دوسرے یونٹس تک پہنچتا ہے تو وہ اس کی جانچ زیادہ تر دودھ کے نقطہء انجماد، فیٹ کی مقدار، اور پروٹین کے اجزا سے کرتے ہیں۔ لیکٹو میٹر نامی ایک آلہ جو دودھ کی کثافت معلوم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اسے دھوکہ دینے کے لئے یہ ایک اور مضر صحت کیمیکل امونیم سلفیٹ ملا دیتے ہیں۔ یہ کیمیکل دست اسہال اور الٹی کے ساتھ ساتھ اگر اسکی مقدار بڑھائی جائے تو اپنے زہریلے اثر کی وجہ سے موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
دودھ میں کونسے کیمیکل ملائے جاتے ہیں اور اس کے انسانی صحت پر کیا اثرات پڑتے ہیں یہ ایک انتہائی درد ناک اور شرمناک داستان ہے۔ عموماً دودھ میں یوریا ( نائٹروجن کی مقدار بڑھانے کے لئے) ، فارملین اور ہائیڈروجن پر آکسائیڈ( لمبے عرصے تک دودھ کو محفوظ کرنے کے لئے) عام ڈٹرجنٹ( دودھ کو جھاگ دار بنانے کے لئے) ویجیٹیبل گھی (فیٹ کی مقدار بڑھانے کے لئے۔) آکسی ٹوسن oxytocin کا ٹیکہ زیادہ پیداوار کے حصول کے لئے جانوروں کو لگایا جاتا ہے جو جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لئے بھی انتہائی مہلک ہے۔ اس سے دودھ کی کوالٹی خراب ہو جاتی ہے اور دودھ قدرے بدبودار ہو جاتا ہے۔ ایک اور کیمیکل جسے میلامائین melamine کے نام سے جانا جاتا یے۔ جو کہ انتہائی مضر صحت ہے۔ یہ وہ بد نام زمانہ کیمیکل ہے جس نے تقریباً آج سے بارہ سال قبل چائنہ میں تباہی پھیلا دی تھی۔ لگ بھگ 3 لاکھ شیر خوار بچے اس کیمیکل ملے دودھ کی وجہ سے گردوں کی پتھری کا شکار ہوئے تھے۔ اس کا استعمال دودھ میں اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ دودھ کے پروٹین لیول کو بڑھایا جا سکے۔ ان کیمیکلز کا بیدردی سے دودھ میں استعمال عام ہے۔ گوالوں سے لے کر کولیکشن یونٹس تک شہر بھر میں سپلائی ہونے سے پہلے یہ دودھ اپنی اصلی ہئیت ان مضر صحت اجزا کے ملانے کی وجہ سے کھو دیتا ہے۔ اور آخر میں ہم پینے والے اسے پروٹین، وٹامنز اور دیگر صحت دوست عوامل کا مجموعہ سمجھ کر بیماریوں کی چلتی پھرتی دکانیں بن جاتے ہیں۔ جنھیں ڈاکٹر سے لے کر حکیم تک جی بھر کے لوٹتے ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ دودھ میں ملاوٹ کیوں کی جاتی ہے۔ اس کا سادہ سا جواب تو ہے بے ایمانی۔ مگر یہ بے ایمانی اس قدر معمولی بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ کیونکہ ان منافع خوروں کی بد دیانتی کی وجہ سے بچے خاص طور پر ان کے منافع کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اور بالغ افراد ہیپاٹائیٹس، گردوں میں پتھری اور دیگر نظام انہضام سے جڑی بیماریوں کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوسری وجہ ملاوٹ کی یہ ہے کہ عام طور پر گرمیوں میں جیسے مئی اور اگست تک مناسب چارہ نہ ہونے کی وجہ سے دودھ کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ اس موسم میں دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے گوالے دودھ میں پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور اس پتلے دودھ کو گاڑھا بنانے کے لئے دودھ میں ان مضر صحت کیمیائی مواد کا استعمال کرتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ دودھ اکٹھا کرنے والے سٹالز مختلف ڈیری کمپنیوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ اچھا اور کریمی دودھ یہ کمپنیاں ان سے بھاری پیسوں کے عوض خرید لیتی ہیں۔ شہری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ انسان نما درندے مصنوعی دودھ تیار کر کے لوگوں کو بیچ دیتے ہیں۔
ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ ہم نے جس ملک میں آنکھ کھولی ہے وہاں پینے کے پانی سے لے کر تمام غذائی مواد جو زندگی کی سانس کو چلانے کے لئے ضروری ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز میسر نہیں جو ہمارے وجود کو اچھی زندگی کی ضمانت دے سکے۔ دودھ بچوں کی نشوونما اور جسمانی مضبوطی کے لئے امرت کی حیثیت رکھتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ یہ قوم آج تک اپنی بنیادی ضروریات پر بھی سوال نہیں اٹھا سکی۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگیوں سے یہ ان پڑھ گوالے کیوں کھیل رہے ہیں۔ ایسی قوم سے کسی اچھائی کی توقع فضول گوئی سے کم نہیں۔ پاکستان دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جہاں 42 ملین ٹن دودھ حاصل کیا جاتا یے۔ مگر پاکستانی عوام کو خالص دودھ نہ ملنا لمحہء فکریہ ہے۔
مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔