Get Alerts

سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا (III)

اگرچہ سائنس کے لیے مذہبی بنیاد پرستی ہمیشہ نحوست رہی ہے لیکن گذشتہ نصف صدی میں مسلم دنیا میں انتہا پسندی کے بے تحاشا عروج کی وجہ کیا ہے؟ 1950 کی دہائی کے وسط میں تمام مسلم رہنما سیکولر تھے اور مسلم دنیا میں سیکولرازم بڑھ رہا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ اس موقع پر سیکولر رجحان کی سمت تبدیل کرنے کی ذمہ داری اہل مغرب کو قبول کرنا ہو گی۔

سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا (III)

( ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون امریکی ادارہ برائے طبیعات کے معروف جریدے ’’Physics Today‘‘ میں 2007 میں شائع ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔اس مضمون کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر ٹکڑا اس سلسلے کا تیسرا اور آخری حصہ ہے: مترجم محمد علی شہباز)

ترقی میں سستی کیوں؟

اگرچہ مسلم ممالک میں سائنسی ترقی کی نسبتاً سست رفتار پر اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی بہت سی وضاحتیں پیش کی جا سکتی ہیں اور کچھ عمومی وضاحتیں سراسر غلط ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ ایک افسانہ ہے کہ مسلم ممالک میں زیادہ تر خواتین اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں۔ اصل میں ایسی خواتین کی تعداد بہت سے مغربی ممالک سے قریب ہے۔ صرف چند مثالوں کے لیے دیکھیے کہ یونیورسٹی کے طلبہ میں مردوں کے مقابلے خواتین کا تناسب مصر میں 35 فیصد، کویت میں 67 فیصد، سعودی عرب میں 27 فیصد اور پاکستان میں 41 فیصد ہے۔ طبیعی علوم اورانجینیئرنگ میں داخلہ لینے والی خواتین کا تناسب تقریباً امریکہ کے برابر ہے۔ تاہم مرد ہم منصبوں کی نسبت ان خواتین کی آزادی پر پابندیوں سے ان کی ذاتی زندگی اور گریجویشن کے بعد پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ان کے پاس بہت کم مواقع بچتے ہیں۔

مسلم ممالک میں جمہوریت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ بھی سست سائنسی ترقی کی اہم وجہ نہیں ہے۔ یہ بات یقینی طور پر درست ہے کہ آمرانہ حکومتیں عام طور پر سوال جواب یا اختلاف رائے کی آزادی سے انکار کرتی ہیں، پیشہ ورانہ معاشروں کو کمزور کرتی ہیں، یونیورسٹیوں کو ڈراتی ہیں اور بیرونی دنیا کے ساتھ رابطوں کو محدود کرتی ہیں۔ لیکن آج کوئی مسلمان حکومت یہاں تک کہ آمرانہ یا نامکمل جمہوری حکومتیں بھی ہٹلر یا جوزف سٹالن جیسی دہشت گردی کا شکار نہیں ہیں حالانکہ ان فاشسٹوں کے دور میں بھی سائنس زندہ رہی اور بعض دفعہ اس نے ترقی بھی کی۔

ایک اور افسانہ یہ ہے کہ مسلم دنیا نئی ٹیکنالوجی کو مسترد کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ پہلے زمانے میں راسخ العقیدگی نے پرنٹنگ پریس، لاؤڈ سپیکر اور پنسلین جیسی نئی ایجادات کی مزاحمت کی تھی، لیکن اس طرح کا انکار اب مفقود ہو چکا ہے۔ اب ہر جگہ سیل فون، جو کہ ترقی یافتہ ترین خلائی عہد کا آلہ ہے، کا پایا جانا حیرت انگیز طور پر تیزی سے مسلم ثقافت کی بلیک باکس ٹیکنالوجی میں جذب ہونے کا مظہر ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں گاڑی چلاتے ہوئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی کہ آپ کو ایک SMS موصول ہو جس میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی میچ جیتنے میں مدد کے لیے فوری دعا کی درخواست کی جا رہی ہو۔

جی پی ایس پر مبنی مشہور مسلم سیل فونز کے جدید ماڈل مسلمانوں کو نماز کے دوران چہرہ درست سمت میں رکھنے، قرآن کے مصدقہ تراجم اور حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے مرحلہ وار ہدایات فراہم کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل قرآن پہلے ہی مقبول ہیں اور اب مائیکرو چپ لگے جائے نماز (نماز کے دوران رکعات کی گنتی کے لیے) بھی منظر عام پر آ رہے ہیں۔

مسلم ممالک میں سست سائنسی ترقی کی کچھ نسبتاً زیادہ معقول وجوہات بھی پیش کی گئی ہیں۔ اول، اگرچہ مٹھی بھر تیل پیدا کرنے والے امیر مسلم ممالک کی بے بہا آمدنی ہے مگر زیادہ تر ممالک دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح کافی غریب ہیں۔ درحقیقت OIC ممالک کی اوسط فی کس آمدنی عالمی اوسط کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ دوم، ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ روایتی مسلم زبانیں جیسے عربی، فارسی، اردو وغیرہ سائنسی علم کی ترویج کیلئے ناکافی ہیں۔ دنیا بھر میں سائنسی ادب کا تقریباً 80 فیصد حصہ سب سے پہلے انگریزی زبان میں چھپتا ہے جبکہ ترقی پذیر دنیا میں چند ایک روایتی زبانوں نے ہی جدید لسانی تقاضوں کے لیے مناسب طریقے سے خود کو تیار کیا ہے۔ فارسی اور ترکی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں تراجم کی تعداد بہت کم ہے۔ 2002 میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، جو کہ عرب دانشوروں نے تیار کی اور مصر کے شہر قاہرہ سے جاری کی، اس میں لکھا گیا؛ 'پوری عرب دنیا میں ہونے والے تراجم کی تعداد تقریباً 330 کتب سالانہ ہے جو کہ صرف یونان میں ترجمہ ہونے والی کتابوں کی تعداد کا پانچواں حصہ ہے'۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ خلیفہ مامون کے عہد کے بعد سے اب تک کے 1000 سالوں میں عربوں نے صرف اتنی کتابیں ہی ترجمہ کی ہیں جتنی ایک ملک سپین صرف ایک سال میں کر لیتا ہے۔

طرز فکر بنیادی اہمیت رکھتی ہے

سائنسی ترقی میں سست رفتاری کی بڑی وجہ مادی وسائل کی کمی نہیں بلکہ انسانی رویے ہیں۔ بنیادی مسئلہ روایتی اور جدید طرز فکر میں نہ ختم ہونے والا تضاد اور سماجی طرز عمل ہے۔ اس بات کی کچھ وضاحت درکار ہے۔ مسلم دنیا میں ترقی کو روکنے والا کوئی بڑا تنازعہ ایسا نہیں ہوا جیسا گیلیلیو اور پوپ اربن ہشتم کے درمیان ہوا تھا۔ بنیادی سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے پیچیدہ مگر ایسے مادی اصول اور سائنسی طریقہ کار سیکھنے کی ضرورت ہے جس سے کسی بھی معقول فرد کے نظام عقائد پر کوئی دباؤ نہیں پڑتا۔ ایک پل تعمیر کرنے والے انجینیئر، روبوٹ کے ماہر یا مائیکرو بائیالوجسٹ یقیناً کائنات کے گہرے اسرار پر غور کیے بغیر مکمل طور پر کامیاب پیشہ ور ہو سکتے ہیں۔ بنیادی اور نظریاتی کشمکش کے حامل مسائل صرف ان سائنس دانوں کو درپیش ہوتے ہیں جو علم کائنات، کوانٹم میکانیات میں عدم تعین، نظام تخریب (Chaos)، نیوروسائنس، انسانی ارتقاء اور اس طرح کے دیگر گہرے موضوعات سے منسلک ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ سائنس کو ترقی دینے کیلئے صرف سکولوں، یونیورسٹیوں، لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو قائم کرنا اور جدید ترین سائنسی آلات کی خریداری ہی کافی ہے۔

لیکن مندرجہ بالا استدلال سطحی اور گمراہ کن ہے۔ سائنس بنیادی طور پر نظریاتی نظام ہے جو ریشہ دار گچھے کی مانند پروان چڑھتا ہے جسے سائنسی طریقہ کار کہتے ہیں۔ سائنس اور اس کے تمام متعلقہ شعبے جہاں تنقیدی فیصلے لازم ہیں، ان میں کامیابی کے لیے سائنس کو بطور عادت اپنانے کیلئے باقاعدہ ذہنی تربیت کرنا لازم ہے۔ سائنسی ترقی مسلسل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حقائق اور مفروضوں کی بار بار جانچ پڑتال کی جائے اور اس میں کسی فرد واحد کی حاکمیت کی گنجائش نہ ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روایتی اور غیر اصلاحی مذہبی فکر کے سامنے سائنسی طرز فکر بالکل اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے میں صرف غیر معمولی ذہانت کے افراد ہی ایسا طرز فکر استعمال کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں جہاں مطلق اختیار حکام بالا کے پاس ہو، سوالات پوچھنا مشکل ہو، کفر کی سزائیں سخت ہوں، عقل مجروح رہے اور یہ یقین کیا جاتا ہو کہ تمام جوابات پہلے سے ہی معلوم ہیں اور اب صرف انہیں دریافت کیا جانا باقی ہے۔

سائنس ایسے ہر سماج میں ناپید ہو جاتی ہے جہاں معجزات کو سنجیدگی سے سچائی مانا جاتا ہو اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہو کہ مادی دنیا کے بارے مستند علم کا ماخذ وحی الہیٰ ہے۔ اگر سائنسی طریقہ کار کو پرے پھینک دیا جائے تو پھر وسائل کی کتنی ہی مقدار ہو یا ترقیاتی کام کی نیت کی جاتی رہے اور بلند بانگ اعلانات کئے جاتے رہیں، یہ سب سائنسی طریقہ کار کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ ان حالات میں سائنس زیادہ سے زیادہ فہرست بندی یا 'تتلیاں جمع کرنے' کی سرگرمی تک ہی محدود رہ جاتی ہے اور حقیقت کی جستجو کا ایک ایسا تخلیقی عمل نہیں بن پاتی کہ جس میں ٹھوس مفروضے بنائے اور جانچے جا سکیں۔

اگرچہ سائنس کے لیے مذہبی بنیاد پرستی ہمیشہ نحوست رہی ہے لیکن گذشتہ نصف صدی میں مسلم دنیا میں انتہا پسندی کے بے تحاشا عروج کی وجہ کیا ہے؟ 1950 کی دہائی کے وسط میں تمام مسلم رہنما سیکولر تھے اور مسلم دنیا میں سیکولرازم بڑھ رہا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ اس موقع پر سیکولر رجحان کی سمت تبدیل کرنے کی ذمہ داری اہل مغرب کو قبول کرنا ہو گی۔ محمد مصدق کی قیادت میں ایران، احمد سوکارنو کی قیادت میں انڈونیشیا اور جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصر وغیرہ سیکولر قوم پرست حکومتوں کی کچھ مثالیں ہیں جو اپنی قومی دولت کی حفاظت کرنا چاہتی تھیں۔ تاہم مغربی سامراجی لالچ نے ان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا۔ انہی وقتوں میں تیل سے مالا مال قدامت پسند عرب ریاستیں جیسے سعودی عرب، جس نے اسلام کی شدت پسند تعبیر برآمد کی، امریکی گاہک بن گئیں۔ 1980 کی دہائی میں سیکولر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی جانب سے دانستہ اسرائیلی حکمت عملی کے تحت بنیاد پرست تنظیم 'حماس' کی مدد کی گئی۔ شاید سب سے اہم واقعہ 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دوران، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (CIA) کی مدد سے شدت پسند اور نظریاتی طور پر سب سے فعال مسلم جنگجوؤں کو مسلح کیا جانا تھا۔ انہیں دور دراز کے مسلم ممالک سے افغانستان لایا گیا اور اس طرح ایک وسیع عالمی جہاد نیٹ ورک تنظیم بنانے میں مدد ملی۔ آج جب سیکولرازم پسپائی اختیار کر رہا ہے تو مسلم بنیاد پرستی اس خلا کو پُر کر رہی ہے۔

سائنس مسلم دنیا میں واپس کیسے آ سکتی ہے؟

1980 کی دہائی میں 'مغربی سائنس' کا ایک متبادل تصور 'مسلم سائنس' کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس تصور کو بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا اور اسے پاکستان، سعودی عرب، مصر اور دیگر جگہوں پر حکومتوں کی طرف سے حمایت حاصل ہوئی۔ امریکی مسلم نظریات دان جیسا کہ اسماعیل فاروقی اور سید حسین نصر وغیرہ نے اعلان کیا کہ توحید (خدا کی وحدانیت)، عبادت، خلافت (امانت الہیٰ)، اور ظلم کے خاتمے جیسے اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر مبنی ایک نئی 'سائنس' کی تعمیر ہونے والی ہے اور صحیح علم کی کھوج میں عقل کے بجائے وحی کو بطور مطلق رہنما تسلیم کر لیا جائے گا۔ دوسروں نے قرآن کی ان آیات کو جو مادی دنیا کی وضاحت سے متعلق ہیں، سائنسی حقائق کے لفظی بیانات کے طور پر لیا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر 'اسلامی سائنس' کی کانفرنسیں منعقد کروانے کیلئے پیسہ بہایا گیا۔ کچھ دینی علماء نے جہنم کے درجہ حرارت کا حساب لگانا چاہا، دوسروں نے عالم بالا میں بسنے والے جنوں کی کیمیائی ساخت معلوم کرنا چاہی۔ کسی نے بھی کوئی نئی مشین یا آلہ تیار نہیں کیا، کوئی تجربہ نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک قابل آزمائش مفروضہ تک مرتب نہیں کیا کہ جسے تجربہ گاہ میں پرکھا جا سکے۔

ایک قدرے مفید نقطہ نظر جو مسلم سائنس کے بجائے باقاعدہ سائنس کا فروغ چاہتا ہے، کچھ اداروں جیسا کہ COMSTECH (سائنٹیفک اور تکنیکی تعاون کی کمیٹی) کی شکل میں سامنے آیا جو کہ 1981 میں OIC کی مسلم سربراہی کانفرنس نے قائم کی۔ اس ادارے نے 'امت' کی خدمت کیلئے IAS (اسلامک اکیڈمی آف سائنسز) اور ISESCO (اسلامک تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم) میں شمولیت اختیار کی لیکن ان تنظیموں کی ویب سائٹس کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دو دہائیوں میں کل ملا کر جو سرگرمیاں ہوئیں ان میں مختلف موضوعات کے حوالے سے وقفے وقفے سے منعقد ہونے والی کانفرنسوں، مٹھی بھر تحقیقی و سفری گرانٹس اور کچھ آلہ جات اور سپیئر پارٹس کی مرمت کے لیے خرچ کی گئی کچھ رقوم شامل ہیں۔ اس صورت حال سے تقریباً مایوسی ہونے لگتی ہے۔ کیا سائنس کبھی مسلم دنیا میں واپس نہیں آئے گی؟ کیا دنیا ہمیشہ دو حصوں میں بٹی رہے گی، وہ جن کے پاس سائنس ہے اور دوسرے وہ جن کے پاس نہیں ہے؟

اگرچہ حال تاریک نظر آتا ہے مگر لازمی نہیں کہ یہ ایسے ہی رہے۔ تاریخ میں کچھ بھی حتمی نہیں ہے اور مسلمانوں کے پاس ابھی ایک موقع ہے۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 20 ویں صدی کے آغاز پر یہودیوں کے امریکہ میں داخلے پر اینگلو امریکی اشرافیہ کا کیا تاثر تھا۔ ہنری ہربرٹ گوڈارڈ جیسے معلم اور یوجینکس (Eugenics) کے مشہور ماہر نے 1913 میں یہودیوں کے بارے تبصرہ کیا تھا کہ، 'یہودی ناامیدی کی حد تک پسماندہ لوگ ہیں جو ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معاشروں کے نئے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتے'۔ اس نے اپنی تحقیق سے ثابت کرنا چاہا تھا کہ یہودی 'مورون' (moron) ہیں، یہ اصطلاح اس نے ذہنی پسماندگی پر طنز کے لیے مشہور کی اور تجویز کیا کہ یہودیوں کو صرف ان کاموں کے لئے ہی استعمال کیا جانا چاہئیے جن میں بہت زیادہ 'جسمانی مشقت' کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مضحکہ خیز تعصب پر مزید بحث کیے بغیر ہی معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور نے ہمیشہ کمزور طبقے کے بارے میں غلط تصورات پال رکھے ہوتے ہیں۔

ترقی کے لیے اپنے رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔ اگر مسلم معاشرے ٹیکنالوجی کے محض صارف بننے کے بجائے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو بے رحمانہ مقابلے کی حامل عالمی منڈی انہیں یہ ماننے پر مجبور کرے گی کہ صرف اعلیٰ مہارت حاصل کرنا کافی نہیں بلکہ سماجی کام کی سخت عادات بھی اپنانا ہوں گی۔ سماج میں کام کرنے کا یہ رویہ مذہبی تقاضوں کے ساتھ بآسانی موافق نہیں بیٹھے گا کیونکہ مذہب یہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک عبادت گزار مسلمان اپنا وقت، توانائی اور ذہن صرف عبات پر مرتکز رکھے۔ مسلمانوں کو روزانہ پانچ اجتماعی نمازوں میں شرکت کرنا ہوتی ہے، ایک مہینہ روزے برداشت کرنے ہوتے ہیں جو کہ جسم کی زکوٰۃ ہیں، روزانہ قرآن کی تلاوت اور دیگر بہت سے مذہبی اعمال سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایسے فرائض اہل ایمان کو آخرت کی زندگی میں کامیابی کی طرف اچھی طرح راغب کرتے ہیں مگر ان سے دنیاوی کامیابی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ ایک زیادہ متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہو گی۔

سائنس ایک بار پھر مسلمانوں میں نشوونما پا سکتی ہے اگر کچھ بنیادی فلسفیانہ نقطہ نظر اور رویوں میں تبدیلیوں کو قبول کرنے پر آمادگی دکھائی جائے اور ایک ایسی جہاں بینی جو روایت کا مردہ ہاتھ کندھے سے اتار پھینکے، تقدیر پسندی اور مطلق حاکمیت پر کامل یقین کو مسترد کرے، کو قبول کیا جائے کہ انسانی قوانین کی قانونی حیثیت عارضی ہوتی ہے، فکری پختگی اور سائنسی دیانت داری کی قدر کرے اور ثقافتی اور شخصی آزادیوں کا احترام کرے۔ سائنس کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کے لیے ایک بہت وسیع مہم درکار ہے جو قدامت پسندی کی شدت کو کم کرے اور جدید طرزفکر، فنون، فلسفہ، جمہوریت اور تکثیریت وغیرہ کو فروغ دے۔

مسلمانوں میں چند قابل احترام اشخاص ایسے ہیں جو مندرجہ بالا تقاضوں اور حقیقی اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر، عبدالکریم سوروش، جسے اسلام کا مارٹن لوتھر کہا جاتا ہے، کو آیت اللہ خمینی نے ابتدائی طور پر ایران کی یونیورسٹیوں میں اصلاحات کی قیادت کیلئے خود منتخب کیا تھا۔ 1980 کی دہائی میں ان کی کاوشوں سے جدید تجزیاتی فلسفیوں جیسے کارل پوپر اور برٹرینڈ رسل وغیرہ کو ایرانی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک اور بااثر جدید مصلح عبدالوہاب میدیب ہیں، جو تیونس کے ایک باشندے ہیں اور فرانس میں پلے بڑھے۔ میدیب کا استدلال کچھ یوں ہے کہ آٹھویں صدی کے وسط میں مسلمانوں نے روشن خیالی کی بنیاد رکھی تھی اور یہ کہ 750 اور 1050 کے درمیان مسلمان مصنفین نے علم کلام میں حیرت انگیز فکری آزادی کا استعمال کیا۔ میدیب کہتے ہیں کہ اپنے تجزیے میں اسلاف نے عقل کی برتری کو تسلیم کیا جو کہ روشن خیالی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔

مسلم دنیا میں جدیدیت اور سائنس کی پذیرائی کے لئے ایک داخلی کشمکش جاری ہے۔ مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ترقی پسند مسلمان قوتیں حالیہ وقتوں میں کمزور تو ہوئی ہیں لیکن بہرحال مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں۔ ہر لمحہ قریب تر ہوتی اس دنیا میں ایسی کشمکش سے کوئی جیت نہیں سکتا۔ لہٰذا اب پرامن ہونے کا وقت ہے۔ ہمیں مغرب میں بھی اور مسلمانوں میں بھی تنگ ذہن قوم پرست اور مذہبی ایجنڈوں کا پیچھا چھوڑنا سیکھنا ہوگا۔ ایک طویل مدت کے بعد سیاسی حدود کو مصنوعی اور عارضی سمجھنے کی ضرورت ہو گی اور ایسا بالکل کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ یورپی یونین کے کامیاب تجربے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یونہی لازمی ہے کہ مذہب پر عمل انفرادی انتخاب کا معاملہ سمجھا جائے، نا کہ ریاست کے ذریعے اسے نافذ کیا جائے۔ اس طرح منطق اور استدلال کے اصولوں کے مطابق حکمرانی اور ترقی کے لئے سیکولر ہیومنزم ہی بچتا ہے جو فطرت سلیم پر مبنی ہے۔ سائنس دان طبقہ بآسانی یہ بات سمجھ چکا ہے۔ اب اصل کام ان لوگوں کو قائل کرنا ہے جو یہ بات نہیں سمجھتے۔

(ختم شد)

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔