پارلیمان کی آوازیں اور شتر مرغ پر سوار حکمران

پارلیمان کی آوازیں اور شتر مرغ پر سوار حکمران
ریاست کی تشکیل کے لیے بنیادی محرک آئین ہوتا ہے۔ آئین سازی پارلیمان کرتی ہے۔ آئین ہی کے ذریعے ریاست تشکیل پاتی ہے۔ پارلیمان یا پارلیمنٹ یا قانون ساز ایوان جہاں قانون سازی کی جاتی ہے۔ پارلیمان تمام تر جمہوری ممالک میں ہوتے ہیں۔ پارلیمان کا نام انگریزی کے پارلیمنٹ سے لیا گیا ہے، جو فرانسیسی لفظ پارلماں سے آیا ہے۔ جس کا مطلب بحث و مباحثے کی جگہ ہے۔

پارلیمان میں ملکی مسائل پر بحث ہوتی ہے اور پھر یہاں سے مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور آئین اور قانون سازی کی جاتی ہے۔ پارلیمان کے دو اقسام ہوتے ہیں ایک کو یک ایوانیت اور دوسرے کو دو ایوانیت کہا جاتا ہے۔ یک ایوانیت وہ پارلیمان ہوتا ہے جس میں صرف ایک ایوان ہو اور قانون سازی وغیرہ سارے امور ایک ہی ایوان سے سر انجام دیے جا رہے ہو اور دو ایوانیت وہ پارلیمان ہوتا ہے جس کے دو ایوان ہوتے ہیں۔ ایک ایوانِ بالا اور دوسرے کو ایوانِ زیریں کہا جاتا ہے اور امور قانون سازی دو ایوانوں سے سر انجام دی جا رہی ہوتی ہے۔

پاکستان کے دو پارلیمانی ایوان ہیں ایک قومی اسمبلی اور دوسرا سینیٹ ہے جس کو پارلیمان کہا جاتا ہے۔ مجالس قانون ساز یعنی مقننہ ہے۔ تمہد باندھنے کا مقصد پارلیمان کا کردار واضع کرنا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹیرین کیا وہ فرض ادا کررہے ہیں جوعوام کی جانب سے سونپا گیا ہے۔ عوامی مسائل پر پارلیمان میں بحث ہوتی ہے؟ قانون سازی کی جارہی ہے؟ ریاست کا بیانیہ تشکیل کر عوام میں بیانیہ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ قوم کی سیاسی و سماجی اور اخلاقی تعمیر کی جارہی ہے؟ عدم تشدد، عدم برداشت، شدت پسندی، انتہا پسندی اور منافرت کے خلاف پارلیمان اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہے؟

افسوس ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے برعکس پارلیمان سے آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پارلیمان بے وقعت ہے۔ سیاستدانوں نے ہوس اقتدار میں پارلیمان کو بے توقیر کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں بے بس ہیں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں میں انتخابی سیاست کا رجحان جڑ پکڑ گیا ہے۔ سیاسی تعلیم اور نظریات کی آبیاری کا کام بالکل بھی نہیں ہے۔ مانگے تانگے کے انتخابی امیدوار پر انحصار رہ گیا ہے۔ پارٹی ٹکٹ کارکنان اور پارٹی کے تربیت یافتہ عہدے داروں کی بجائے طاقت و دولت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی اخراجات کرنے والے اور پارٹی کو فنڈ دینے والے کو دیے جاتے ہیں۔ اس کا پارٹی کے نظریات، منشور سے متفق اور ممبر ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کا نقشہ بدل گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی روش ایک ہے۔ جس کا اظہار ہم پارلیمان میں دیکھتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اقتدار کیلئے سیاست دانوں کی آخری امید مقتدرہ ہی رہ گئی ہے۔

حکمران جماعت تحریک انصاف نے سیاسی نظریات، سیاسی تعلیم اور سیاسی اقدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے کام ہی تمام کردیا ہے۔ حکمران جماعت نے اقتدار کے لئے نظریات کی سیاست دفن کر دی ہے۔ پارلیمنٹ میں لائے گئے ممبران کے فرائض میں اپوزیشن کے خلاف بولنا اور اپنی جماعت کا دفاع کرنا ہے اور نان ایشوز پر شور مچانا ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ سیاسی فکر سے نابلد ہیں۔

تحریک انصاف کی ملک کے نوجوانوں سے فکر چھین کر ان میں عدم برداشت اور تکرار کی خو ڈال دی ہے، جس کی بنیاد پر اک خاص اصطلاح یوتھیا یا قوم یوتھ سامنے آئی ہے۔ تحریک انصاف نے ہوس اقتدار کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کیے آج انہی ہتھکنڈوں کا شکار نظر آتی ہے۔ صبر سے کام لیتے اور بطور سیاسی جماعت اپنے پارلیمنٹرین تیار کرکے میدان میں اتارے ہوتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور عمران خان عوام کے حقیقی لیڈر بن کر ابھرتے مگر آج تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے خود پر افسوس کر رہے ہیں۔

حکمران جماعت شتر مرغ پر سوار ہے۔ شترمرغ انسان کو اپنی پشت پر بٹھا کر بڑی تیزی سے دوڑ سکتا ہے لیکن جلدی تھک جاتا ہے۔ شتر مرغ سیدھا بھاگنے کے بجائے لہرا کر دوڑتا ہے۔ ہر لمحہ دائیں بائیں مڑتا ہے لہذا اس پر سوار کو بہت چوکس اور ہوشیار ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ورنہ کسی بھی لمحے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔