یہ سیاسی نظریے کا رومانس ہی تھا کہ سیاسی کارکن رقص کرتے اور نعرے لگاتے ٹکٹکی کی طرف جاتے تھے، پیٹھ پر ہر برستے کوڑے کے ساتھ ایک نعرہ گونجتا اور چاروں طرف خوف و جبر کی دھوپ میں کھڑے لوگوں میں حوصلے کی برقی لہر دوڑا دیتا۔
لیکن اب یہ سب کچھ قصہ ماضی ٹھہرا۔ جس نسل نے اپنی پیٹھ پر کوڑے کھائے وہ یا تو مر کھپ گئی یا سیاست کے وطن سے جلاوطن کر دی گئی۔ آنے والے برسوں میں باقی جو تھے ان میں سے کچھ میڈیا یا این جی اوز میں چلے گئے۔ سول سوسائٹی کی ایک توانا آواز ہوا کرتی تھی وہ بھی حالیہ سالوں میں خاموش کرا دی گئی ہے۔
ضیاء الحق کے بعد 36 سالوں میں سیاسی نظریات کو فارغ کرنے کا پروجیکٹ کامیابی سے اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔
ماضی کو یاد کر کے آج بھی کچھ لوگ اپنا سیاسی ٹھرک پورا کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وہ کارکن جن کا تعلق دادو یا بدین سے ہے، اب 60 کی دہائی پھلانگ چکے ہیں۔ بدین والے کامریڈ اب بھی ضیاء الحق کی بدین آمد پر اپنے کارنامے کا تذکرہ کر ہی لیتے ہیں، جب وہ ایک گدھے پر جنرل ضیاء کا نام لکھ کر سڑک پر لے آئے تھے۔ یہ 1983 کا سال تھا۔ جنرل ضیاء الحق بدین کے پی اے ایف بیس پر لینڈ کر رہے تھے۔ انہیں طے شدہ پروگرام کے تحت ایریگیشن ریسٹ ہاؤس آنا تھا جہاں 'معززین' کی بڑی تعداد ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اریگیشن ریسٹ ہاؤس کے سامنے والی سڑک کے دونوں پشتوں پر سپاہیوں کی ایک طویل قطار سڑک کو اپنی پشت دیے کھڑی تھی۔ اچانک گدھے کے دوڑنے پر ایک افسر چیخا، سپاہیوں نے پیچھے مڑ کر سڑک کی طرف دیکھا، گدھا اریگیشن ریسٹ ہاؤس کی طرف دوڑا جا رہا تھا۔ ان کامریڈوں نے گدھے کی رفتار بڑھانے کا دیسی طریقہ استعمال کیا تھا، اس لئے پولیس کی پریشانی سمجھ میں آتی تھی۔
'ہم اپنی زمین پر بھٹو صاحب کے قاتل کا ایسے ہی استقبال کر سکتے تھے'، پیپلز پارٹی کے کچھ کارکن بتاتے ہیں۔
'ان دنوں مارک ٹیلی نے بھی بی بی سی پر ہمارے اس کارنامے کو رپورٹ کیا تھا'، وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
تیزی سے تبدیل ہوتے حالات میں چند دہائیوں کی یہ کہانی اب کوئی دیومالائی داستان لگتی ہے۔
ایم آر ڈی کی 1983 اور 1986 کی دو مراحل پر مشتمل جدوجہد نے اسٹیبلشمنٹ کو نیا پلان بنانے کی ترغیب دی۔ ملک کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں 'عوامی بھلائی کے مراکز' قائم کیے گئے، جہاں سے آہستہ آہستہ مقامی سیاسی قیادتوں جن میں سیاسی کارکن کم لیکن ووٹ لینے والے زیادہ ہوتے، ان سے براہ راست رابطے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ تھوڑے بہت 'چلتے پھرتے پرزوں' تک پہنچا اور ان کا کام زیادہ آسان ہوتا گیا۔
یوں تو سیاسی جماعتوں کے اندر 'اپنے لوگ' داخل کرنا کوئی نہیں بات نہیں تھی، لیکن حالات سے ڈسی ہوئی جماعتوں کی لیڈرشپ 'اپنے لوگوں' سے جیسے واقف ہوتی گئی تو انہوں نے انہیں نکالنے کے بجائے ان سے پیغام رسانی کا بھی کام لیا۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے نئی سیاسی جماعتوں کی صورت میں اپنے لوگ میدان میں اتارے تا کہ 'درمیان' والا قصہ ہی ختم کر دیا جائے۔ یا ان کو فیصلہ کن پوزیشن میں لایا جائے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی وفاقی حکومت آئینی انداز سے یہ بتا چکی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کو اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے ختم کر دے گی جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے نئی مردم شماری کی منظوری ملنے کے بعد کم از کم سات ماہ تک نگران سیٹ اپ تو قائم رہے گا۔ اہم وفاقی وزرا بھی کنفیوژن کا شکار تھے کہ نگران سیٹ اپ اپنی مدت کے اندر انتخابات کرا کر اقتدار منتخب جماعتوں کے حوالے کرے گا یا یہ طویل ہو جائے گا؟ بہرحال یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کیونکہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ عام انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں۔
'پی ڈی ایم، الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے جو کردار ادا کر چکے ہیں اس کے بعد آئین و قانون کی اوقات ہی کیا رہتی ہے'۔ وفاقی بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے ایک افسر مجھے بتا رہے تھے۔
لیکن بات 2018 سے شروع کرتے ہیں جب اسٹیبلشمنٹ کا 'عمران پروجیکٹ' نمائش کیلئے پیش کیا جا چکا تھا۔ سینیٹ کے انتخابات ہو رہے تھے، بلوچستان میں 8 سینیٹرز آزاد حیثیت میں منتخب ہو چکے تھے اور یہ تمام منتخب سینیٹرز بلوچستان ہاؤس میں رہائش پذیر تھے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو ان کو لیڈ کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سینیٹ کے ایوان میں اکثریت تھی اور یہ دونوں جماعتیں اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کرانے کی فیصلہ کن پوزیشن میں تھیں۔ لیکن عبدالقدوس بزنجو جادو کی چھڑی لیکر ایک انہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی ٹھان چکے تھے۔ بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں صادق سنجرانی کی طرف کسی دوست نے اشارہ کر کے مجھے بتایا کہ یہ چیئرمین سینیٹ کا امیدوار ہے۔ جب میں نے اس بات کی تصدیق چاہی تو انہوں نے سندھی میں روایتی جملہ کہا کہ 'اللہ خیر کندو'۔ میں نے بھی اس بات کو اتنا زیادہ سنجیدہ نہیں لیا لیکن 24 گھنٹوں کے اندر صورت حال تبدیل ہوئی اور وزیر اعظم عمران خان بلوچستان ہاؤس پہنچے۔ اپنے تمام ووٹ قدوس بزنجو کی جھولی میں ڈال دیے۔ وہی پرانا جملہ 'بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے ہم یہ فیصلہ کر رہے ہیں'۔
ان دنوں میاں نواز شریف نے رضا ربانی کو سینیٹ چیئرمین کیلئے مشترکہ امیدوار بنانے کی پیش کش کی لیکن آصف زرداری صاحب نے مسترد کر دی۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ رضا ربانی نے بحیثیت چیئرمین سینیٹ پارٹی سینیٹرز اور قیادت کو کوئی لفٹ نہیں کرائی تھی۔ آئینی اور قانونی معاملات میں تو انہوں نے پیپلز پارٹی کی واہ واہ کرائی لیکن پارٹی والوں کے اپنے یا اپنوں کے کاموں میں ایک کی بھی نہ سنی۔ عمران خان کی حمایت کے بعد 11 مارچ 2018 کو قدوس بزنجو کی قیادت میں ایک وفد اسلام آباد میں زرداری ہاؤس پہنچا۔ تین چار گھنٹے تک مذاکرات ہوئے اور پھر پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب اسی وفد کے ساتھ باہر آئے اور میڈیا کے سامنے بلوچستان کے احساس محرومی کو دور کرنے کیلئے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا۔
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں نے بعد میں نئی جماعت کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام بلوچستان عوامی پارٹی رکھا گیا۔ اسے آج کل پاکستان میں 'باپ' کہا جاتا ہے۔
اگلے سال اگست 2019 میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ خیال آیا کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ شاید وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ صادق سنجرانی کی اب وہ پوزیشن نہیں رہی جو مارچ 2018 میں تھی۔ سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر یہ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دینا چاہتی تھیں، لیکن اکثریت میں ہونے اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی اپوزیشن ناکام رہی۔ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دی گئی۔
اس روز مرحوم میر حاصل بزنجو نے جو کچھ کہا وہ یا تو سینیٹ کے یا یوٹیوب کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ باقی ان کی باتیں کسی کو یاد نہیں۔
اس ناکامی کا ملبہ ن لیگ نے آصف زرداری پر ڈالا۔ تحقیقاتی کمیٹیز بھی قائم ہوئیں جن کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ان سینیٹرز کا پتہ لگائیں جنہوں نے ووٹ کی پرچی پر درج نام کے سامنے ٹھپہ لگانے کے بجائے اس کے اوپر لگایا۔ لیکن ان کی کمیٹیز کی تحقیقات کا کیا ہوا، کسی کو کچھ پتہ نہ چلا۔
بدقسمت صوبے کا خوش قسمت صادق سنجرانی دو بار چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد اس بار نگران وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں تھا، لیکن اب کی بار پرچی انوار الحق کاکڑ کے نام کی نکلی۔
نگران وزیر اعظم کا نام سامنے آنے سے پہلے جب اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کی وزیر اعظم شہباز شریف سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس ملاقات کی تصویر جاری ہوئی تو سوشل میڈیا کے ایک دانشور نے تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں رہنما نگران وزیر اعظم کے نام کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ 'تُسی دسو کی ناں اے؟'
لیکن دوسرے دن دوسری ملاقات کے بعد راجا ریاض میڈیا کے سامنے آئے اور کہا کہ 'میں نے انوار الحق کاکڑ کا نام دیا تھا، وزیراعظم نے قبول کر لیا'۔
'سرپرائز کیا ہوتا ہے، اس کا پتہ انوار الحق کاکڑ کی نامزدگی کے بعد ہوا ہے'۔ ایک حکومتی رہنما نے کہا۔
ایک رات پہلے جب سید خورشید شاہ کی رہائش گاہ پر ہم چند دوست مدعو تھے تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو پانچ نام دیے ہیں اگر ان میں سے کوئی وزیر اعظم نہ بنا تو سمجھیں معاملہ لمبا چلے گا۔
جب انوارالحق کاکڑ کا نام سامنے آیا تو خورشید شاہ صاحب نے بیان جاری کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ جو نام ہم نے دیے ان میں انوار الحق کاکڑ کا نام نہیں تھا۔ لیکن چند گھنٹوں بعد انہیں بھی انوار الحق کاکڑ کو مبارک باد دینے کا بیان جاری کرنا پڑا۔
انوار الحق کاکڑ قومی منظرنامے میں ایک مختصر سیاسی کریئر رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق کسی بڑے نہیں بلکہ مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ یہ بحث اب فضول ہے کہ انوار الحق کاکڑ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہے یا نہیں، کون نہیں ہے؟ ملکی تاریخ میں کسی بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والا وزیر اعظم کہے کہ اسے فخر ہے کہ 'وہ 30 سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہے' تو پھر 'ووٹ کو عزت دو' کا بھائی والا نظریہ تو تیل لینے ہی چلا جائے گا نا۔
شہباز شریف اور ان کے اتحادی لیڈر ماضی قریب میں قومی اسمبلی کے ایوان میں اسٹیبلشمنٹ سے یہ شکوہ کرتے سنے گئے کہ جتنی شفقت عمران خان کے ساتھ کی گئی، اتنی اگر ان کے ساتھ کی جاتی تو ملک کا نقشہ ہی تبدیل ہو جاتا۔
عمران خان ہوں یا حال ہی میں مدت پوری کرنے والی یہ سیاسی قیادت، سب نے ہی کچھ نیا نہیں کیا، ہاں البتہ جو اپنے اختیارات تھے وہ بھی سرنڈر کیے۔
سیاست کی بوتل میں نظریات کے رومانس کا جو بچا کچا شہد تھا وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، نواز شریف کی پاناما کے ذریعے بے دخلی اور عمران خان کی منتقم حکومت کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ جمہوریت کے ان تین ادوار نے سیاست کو مستحکم کرنے کے بجائے مزید کمزور کر دیا ہے۔ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں جو کچھ ہوا، اس نے باقی مخالف بوڑھی لیڈرشپ کو مجبور کیا کہ وہ سودے بازی کر کے اقتدار میں آئے اور عمران خان کو رگڑا دے۔ یہی سبب تھا کہ قومی اسمبلی کے الوداعی خطاب میں بلاول بھٹو اپنے والد اور میاں نواز شریف پر پھٹ پڑے کہ وہ ایسی سیاست نہ کریں جس کے بوجھ ان کی اولادیں نہ اٹھا سکیں۔
لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جب سیاسی جماعتیں بنیادی اصولوں کی پاسداری نہ کریں تو اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے، جس میں سے وہ گزر رہی ہیں۔