اسلام آباد ہائیکورٹ کا شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی رہائی کا حکم

عدالت نے کہا کہ شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کسی قسم کا بیان میڈیا پر نہیں دیں گے۔ آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد ان کی حفاظت کے ذمے دار ہوں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی رہائی کا حکم

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار  کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے دونوں کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔

شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی مینٹیننس پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کی۔

ڈی سی اسلام آباد بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد، شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار اور درخواست گزاروں کے وکیل شیر افضل مروت بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت نے شہریار آفریدی اور شاندانہ کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے دونوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔

عدالت کی جانب سےجاری کیے گئےتحریری حکم نامے کے مطابق عدالت نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کو اسلام آباد سے باہر جانے بھی روک دیا۔ عدالت نے کہا کہ دونوں کسی قسم کا بیان میڈیا پر نہیں دیں گے۔ آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد ان کی حفاظت کے ذمے دار ہوں گے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ایم پی او آرڈر 28 اگست تک معطل کر کے رہائی کا حکم دیا گیا۔ کیس کی مزید سماعت 28 اگست کو ہوگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی عدالت سے تحریری آرڈر جاری ہوا۔

قبل ازیں عدالت نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا تھا کہ شہریار آفریدی اسلام آباد میں آپ کا کوئی گھر ہے؟ انہوں نے کہا جی اسلام آباد میں میرا گھر موجود ہے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنے اسلام آباد والے گھر میں موجود رہیں۔

عدالت نے شہریار آفریدی کو اسلام آباد سے باہر جانے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ شہریار آفریدی اپنے اسلام آباد کے گھر میں رہیں گے۔ اگر شہریار آفریدی کو کچھ ہوا تو ڈی سی اور آئی جی اسلام آباد ذمہ دار ہوں گے۔ شہریار آفریدی کی حفاظت یقینی بنائیں۔

عدالت نے شاندانہ گلزار کو بھی گھر جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ اگر ان دونوں کو کچھ ہوا تو آئی جی اور چیف کمشنر اس کے ذمے دار ہوں گے۔