ہم مثبت خبریں کہاں سے لائیں؟

ہم مثبت خبریں کہاں سے لائیں؟
جب پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل جہانیاں میں کورٹ کچہری کے عین سامنے ماں اور بیٹی کو دیرینہ دشمنی کی بنیاد پہ گولیاں مار کر قتل کر دیا جائے اور حملہ آور آسانی سے فرار ہو جائیں تو ایسے میں مثبت رپورٹنگ یہی ہوگی کہ واقعہ من و عن بیان کیا جائے اور حساس ترین علاقے میں سکیورٹی انتظامات پہ سوال اٹھایا جائے۔

مثبت رپورٹنگ یہ بھی ہوگی کہ ریاست کہتی ہے کہ ہر شہری کی جان کی اہمیت برابر ہے تو کیا اس کورٹ میں بیٹھنے والے جج صاحبان کو قتل کرنا بھی اتنا ہی آسان ہوتا جتنا ان ماں بیٹی کو کرنا تھا؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر اگلا سوال ’کیوں؟‘ ہی ہوگا۔

اس خواہش کا اظہار پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا

ہمارے حکام کو میڈیا سے یہ شکایت ہے کہ وہ ملک کی منفی تصویر کشی زیادہ کر رہا ہے اور مثبت منظر کم دکھا رہا ہے۔ یہ شکایت پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی۔ آزادی سے پہلے فرنگی سرکار کو میڈیا اور ادیبوں سے شکایت تھی کہ وہ مثبت خبر نگاری نہیں کرتے۔ پھر ہمارے اولین دیسی حاکموں کو شکایت ہوئی کہ مثبت خبر نگاری نہیں ہو رہی۔

افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے کہا جاتا تھا کہ وہ سماج کی ننگی تصویر کشی کرتا ہے۔ اور معاشرے کے کپڑے اتارنے میں لگا ہوا ہے۔ اس نے جواب میں کہا تھا کہ معاشرے کے کپڑے تو پہلے ہی اترے ہوئے ہیں۔ معاشرے کے ننگ کو ختم کیے بغیر صحافی یا ادیب سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ یہ ننگ اپنی خبر، تجزیے یا کہانی میں نہ دکھائیں عبث ہے۔

مظاہروں اور سامنے آنے والے اعداد و شمار کو نہ شائع کریں تو اس سے حقیقت کہاں چھپے گی؟

بلوچستان کے صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ میں متاثرین جبری گمشدگی کی تعداد میں روز بروز اضافے کو نہ دکھائیں یا اس معاملے پہ ہونے والے مظاہروں اور سامنے آنے والے اعداد و شمار کو نہ شائع کریں تو اس سے حقیقت کہاں چھپے گی؟ کیسے ایک شاعر کو اپنے اردگرد جنم لینے والے المیوں کو منظوم کرنے سے روکا جائے گا؟ کیسے کسی دماغ کو ان کہانیوں کو بننے سے روکا جا سکتا ہے جو جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشیں، وسائل کی لوٹ، ریاستی و غیر ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں پہ تخلیق کی دیوی کو مہمیز لگاتی ہیں؟ سماج سے حساسیت کو ختم کرنے کی کوشش ہمیشہ الٹ نتائج دیتی ہے۔ جب مین سٹریم میڈیا یا علاقائی پریس صورت حال کی معروضی خبر نگاری سے روک دیا جاتا ہے۔ واقعات کی معروف ذرائع سے تصدیق اور ان کی اشاعت و نشر کرنے پہ سنسر لگتا ہے تو پھر دوسرے طریقوں سے ان کی ترسیل ہوتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پھر افواہوں کا بازار سرگرم ہوتا ہے۔ پروپیگنڈا ترقی کرتا ہے۔ سچ جھوٹ سے ملتا ہے۔ حقیقت افسانے سے ملتی ہے اور ہر کسی کے پاس اپنا سچ اور اپنا جھوٹ ہوتا ہے۔

قبائلی علاقوں سے متعلق رپورٹنگ کا ایک ذریعہ سکیورٹی ادارے، دوسرا پی ٹی ایم ہے

جن علاقوں میں اس وقت شورش ہے، چاہے ان کا تعلق بلوچستان سے ہے یا قبائلی علاقہ جات سے، وہاں پہ ہوئے فوجی آپریشن اور وہاں پہ اس وقت کی صورت حال بارے جانکاری کا ایک ذریعہ تو سکیورٹی اداروں کے ترجمان ہیں جبکہ دوسرا ذریعہ اس وقت پشتون حقوق کے نام پہ کھڑی سب سے بڑی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کا میڈیا سیل اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں۔ ان علاقوں تک انسانی حقوق کے آزاد کمیشن کی رسائی نہیں ہے اور نہ ہی میڈیا کے لوگوں کی آزادانہ رسائی وہاں ممکن ہے۔ ایسے میں خبر کے ذرائع بہت حد تک مبہم ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے افواہیں طاقتور ہوئی ہیں۔ واقعات کے سچے اور جھوٹے ہونے کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

آخرکار شہید بچوں کے دکھی والدین کو اس سانحے بارے ان کے سوالات کے جواب فراہم کرنے میں کیا امر مانع تھا؟

آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے پہ اول دن سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ موجود تھا جو کئی سالوں بعد سپریم کورٹ کے حکم پہ بنی مگر یہ کمیٹی بھی غیر مؤثر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر اس سانحے میں سکیورٹی میں غفلت برتنے کے ذمہ داران کا تعین ہوا ہوتا اور ان کے خلاف کارروائی کو پبلک کیا گیا ہوتا اور معاملات پہ اسرار کا پردہ نہ پڑا ہوتا تو اس سانحے پہ کم ازکم یہ الزام نہ لگتا کہ یہ سانحہ اندر کے لوگوں کی کارستانی ہے۔ اس واقعے کو امریکی سامراجی کیمپ اور ان کے حامی کمرشل لبرل جیسے ایکسپلائٹ کر رہے ہیں ویسے وہ نہ کر پاتے۔ آخرکار شہید بچوں کے دکھی والدین کو اس سانحے بارے ان کے سوالات کے جواب فراہم کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ کیا فضل حق ایڈووکیٹ اپنے بچے کی شہادت کے اسباب جاننے کا حق نہیں رکھتا؟ کیا لاپتہ ہوجانے والے افراد کے اہل خانہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کرانے میں حکومت اور ریاست کے جملہ ادارے ناکام کیوں ہیں؟ اور آج تک غائب کرنے والوں کے ذمہ دار عناصر کو باز کیوں نہیں رکھا گیا؟

458 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے

پاکستان میں معیشت، سیاست اور عام آدمی کی زندگی کے محل وقوع میں کوئی بھی بڑی مثبت خبر آئی نہیں ہے۔ اب جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو خبر آئی کہ 458 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس میں جان بچانے والی اشد ضروری ادویات بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ایک بار پھر ڈالر کی قیمت اوپر جانے سے مہنگائی کی تیسری لہر آئی ہے۔ حکومت کے پہلے چار مہینوں میں عوام نے تین بار مہنگائی کے بڑے جھٹکے سہے ہیں۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کی زد میں چھوٹے دکاندار، ٹھیلے و سٹال والے آئے ہیں۔ اس سے ہزاروں خاندانوں سے دیکھتے ہی دیکھتے روزگار چھن گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بلوچستان میں کل غربت کا 65 فیصد بتاتے ہیں۔ سندھ میں وہ یہ تعداد 34 فیصد اور پنجاب میں 26 فیصد کہتے ہیں۔ لاہور شہر میں کئی سو سکولوں کی عمارتیں گرنے والی ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ وہ ان کی فی الفور مرمت نہیں کروا سکتے کیونکہ فنڈ نہیں ہیں۔ اگر چیف منسٹر پنجاب پچاس ارب روپے کا پیکج ڈیرہ غازی خان کو دے سکتے ہیں تو لاہور کے سو سے زائد خستہ سکولوں کے لئے ان کا صوابدیدی اختیار حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ وزیراعظم میانوالی کو خصوصی پیکج دے سکتے ہیں تو یہ خصوصی پیکج لاہور کے خستہ حال سکولوں کے لئے کیوں نہیں آ سکتا؟ سرائیکی صوبہ بنانے کے وعدے پہ بھی عمل سو دن میں نہیں ہوا۔ اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

سماج میں چین، سکھ، شانتی پیدا کیے بغیر ان سب کے ہو جانے کی خبر کیسے دی جائے؟

اس صورت حال میں جس قسم کی خبر نگاری کو حکام مثبت خبر نگاری کہتے ہیں وہ کرنا سرے سے ممکن نہیں ہے۔ سماج میں چین، سکھ، شانتی پیدا کیے بغیر ان سب کے ہو جانے کی خبر کیسے دی جائے گی اور ان کے نہ ہوتے ہوئے کالم یا تجزیہ میں حکومت کی تعریف اس باب میں کیسے ہوگی؟