قائد اعظم ہسپتال جا رہے تھے، راستے میں گاڑی خراب ہوگئی جو ان کی موت کی وجہ بنی۔لیاقت علی خان کو بھرے مجمع میں گولی ماری گئی اور ان کے قاتل کو بھی موقعے پر ہی مار دیا گیا۔ لیاقت علی خان کے قتل کیس کی فائل عدالت نے طلب کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہ فائل گم ہو چکی ہے۔ ملک غلام محمد جو کہ بولنے سے بھی قاصر تھے اور جن کی بات صرف ان کی امریکی ’ سیکریٹری ‘ہی سمجھتی تھی ملک کے گورنر جنرل بن گئے۔ یحیی خان نے کھل کر رنگینیاں بکھیریں۔
بھٹو لبرل تھا لیکن ایک طبقے کو اقلیت بنا گیا۔ ضیاالحق نے ملک کو ایک پٹڑی سے اٹھا کر دوسری پٹڑی پر چلا دیا۔جمہوریت کے’ داعی‘ بینظیر اور نواز شریف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے ( اگرچہ بعد میں تائب ہوگئے)۔ وفاقی دارلحکومت کے قلب میں قائم مدرسے میں اسلحہ پہنچ گیا۔ پرویز مشرف کسی سےڈرتے ورتے نہیں تھے ، کبھی وطن واپس نہیں آئے۔ آصف زرداری جنہیں غریبوں کا دکھ اندر ہی اندر کھائے جاتا ہے، سندھ کو’ ترقیوں‘ کی معراج پر لے گئے۔محفوظ ترین تعلیمی ادارے،آرمی پبلک سکول میں دہشت گرد داخل ہوگئے۔ ماڈل ٹاؤن میں دن دیہاڑے لوگ قتل ہوگئے۔ ساہیوال میں بچوں کے سامنے ماں باپ مار دیے گئے۔ ایان علی کیس کا کسٹم انسپکٹر قتل ہوگیا۔ کانجو اور شاہ رخ قتل کر کے بھی ہیرو رہے۔ بینظیر کے سٹیج پر کھڑے خالد شہنشاہ بھی بینظیر کے کچھ عرصے بعد مارے گئے۔ لاہور یتیم خانے کے کیس کی اہم گواہ بھی مر گئی۔ اور بھی ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں آرٹیکل چھ کی ننھی سی فرمائش کردی ہے تو وزیر اعظم کی پرانی تقریروں اور ان کے اپنے دھرنے کے اعمال دکھا دکھا کر آپ سب لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بات تاریخ، دنیا، ہمارے ملک اور ہماری زندگیوں سے ثابت شدہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک قانون ہے، اور وہ طاقت ہے۔ ہم اوپر بیان کیے گئے اور اس جیسے کئی اور کیسز میں طاقتوروں کا کیا بگاڑ لیا تھا؟ تو اگر آج وزیر اعظم، مولاناپر کیس بنانے یا بنوانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو خدا کی قسم، آپ وزیر اعظم کا کچھ نہیں اکھاڑ سکتے۔ لہذاآرام کریں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ نہ کیا کریں ۔