مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس بار پاکستان تحریکِ انصاف کے اراکین کو کہیں سے کالز وغیرہ نہیں آ رہیں۔
منگل کی شام جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 20 سے 22 لوگوں کی جو بات ہو رہی ہے یہ سب حکومتی جماعت کے اندر سے ہیں اور جہاں بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کوئی کال آئے گی تو پھر ہم عدم اعتماد کی تحریک کے لئے ووٹ دیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر ان کو کوئی کال نہ آئی تو یہ ووٹ دے دیں گے۔ اور اس وقت میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ انہیں کوئی کالز نہیں آ رہیں۔
شاہزیب خانزادہ کے سوال پر کہ شاہد خاقان عباسی تو کہہ رہے ہیں کہ جب تک فون کالز آنا بند نہیں ہوں گی، عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جن لوگوں سے ہماری بات چیت ہو رہی ہے، ان کے بارے میں کسی کو علم نہیں اور ان لوگوں کو آپس میں بھی نہیں پتا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ان کا علم ہے اور باقی سب محض اپنے قیاس کی بنیاد پر باتیں کر رہے ہیں، لہٰذا تمام باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے۔ درجن بھر ٹاک شوز میں قریب تین درجن لوگ بیٹھتے ہیں، آپ سب کو تو نہیں بتا سکتے۔
پروگرام میں ساتھ موجود قمر الزمان کائرہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں بھی شاید تین سے چار لوگوں کو ہی علم ہوگا کہ کون کون ان سے رابطے میں ہے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ باتیں ٹاک شوز میں بیٹھ کر نہیں کی جا سکتیں، یہ صیغۂ راز میں رکھی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اشارے کے بغیر نہیں جائیں گے لیکن جن 20 سے 22 لوگوں کی بات ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں، وہ یوسف رضا گیلانی کے الیکشن کے وقت سے مسلسل ہمیں کہتے رہے ہیں کہ اگر ہمیں روکا نہ گیا تو ہم ووٹ عمران خان کے خلاف دیں گے۔ اور اب ان میں سے اکثریت کہہ رہی ہے کہ ان کو کوئی اشارہ نہیں آ رہا اور روکا نہیں جا رہا۔ تو جو لوگ اشارے پر رکے ہوئے ہیں، وہ رکے رہیں۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو آپ کے اشارے کا انتظار ہوگا۔ جس پر رانا ثناء اللی نے کہا کہ ہم تو تیار بیٹھے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ دیکھتے ہیں آپ کا کیا حتمی نتیجہ نکلتا ہے۔ رانا ثناء نے کہا کہ اس بار حتمی نتیجہ ضرور نکلے گا۔ یہ نتیجہ حکومت کے خلاف نکلے گا اور ان کو خود بھی علم ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ اندر جو بھاگ دوڑ یہ کر رہے ہیں، اس تک آپ کو اطلاع ہو تو آپ کو یہ پتا چل جائے کہ اندر سے ان کو کتنی مصیبت پڑی ہوئی ہے۔
قمر الزمان کائرہ نے اس موقع پر کہا کہ ق لیگ وہ واحد جماعت نہیں جس سے ہماری عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی سے ہماری بات چیت ہوئی تھی، شہباز شریف صاحب کی بھی ہوئی تھی اور مولانا فضل الرحمان کی بھی۔ اور سب کو چودھری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ میں پارٹی کے ساتھ مشاورت کے بعد کوئی جواب دوں گا۔ گذشتہ روز دو پروگرامز میں کامل علی آغا میرے ساتھ پروگرامز میں موجود تھے، ان کے مطابق تو ابھی تک پارٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ مونس الٰہی صاحب نے البتہ ضرور بات کی ہے۔ ان کے باقی جملوں کی تو مجھے نہیں پروا لیکن ایک جملے پر البتہ مجھے اعتراض ہے کہ انہوں نے اپنے گھر آنے والے لوگوں کے بارے میں کہا کہ یہ آج کل تماشا لگا ہوا ہے۔ یہ تماشا نہیں ہے۔ اگر اس کو تماشا کہتے ہیں تو یہ اپنے گھر والا تماشا بند کر دیں۔ ہم سنجیدہ لوگ ہیں۔ ہم نے کوششیں کی ہیں۔ مسلم لیگ بڑے عرصے کے بعد جو ان کو غصہ تھا ق لیگ کی قیادت سے، اس کو بھلا کر ان کے گھر گئی ہے اور پیپلز پارٹی کی بھی یہی کیفیت ہے، اس کو تماشے سے تعبیر کرنا بڑی غیر سنجیدگی ہے۔
کائرہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک بات ہے دیگر جماعتوں کی تو ایم کیو ایم نے محض اتنا کہا ہے کہ اب تک ہم سے کوئی پروگرام شیئر نہیں کیا گیا۔ ہمیں پہلے تو آپس میں فیصلہ کرنا تھا۔ ایم کیو ایم نے بھی یہی کہا تھا کہ پہلے اپوزیشن جماعتیں آپس میں اکٹھی ہو لیں۔ اس سوال پر کہ آپ ان جماعتوں کو ایسا کیا دے دیں گے جو موجودہ حکومت سے بہتر ہو، کائرہ کا کہنا تھا کہ ہم تو حکومت کو چلتا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ حکومت گرنے کے بعد چند ہفتوں کے لئے نئی حکومت آئے جو انتخابی اصلاحات کرے، جو انہوں نے قانون خراب کیا ہے، وہ ٹھیک کیا جائے۔ صرف آزادانہ انتخاب مسئلے کا حل ہے۔ لین دین کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہ کوئی ڈیڑھ سال کا معاملہ نہیں۔
یاد رہے کہ منگل ہی صبح جنگ اخبار میں اعزاز سید نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے دو سمریوں پر صدر عارف علوی سے دستخط کروا لیے ہیں۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک سینیئر سرکاری افسر کی تعیناتی کے حوالے سے ہے۔ تاہم، صدر عارف علوی نے ڈان نیوز پر عادل شاہزیب کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خبر کی تردید کر دی ہے۔ اس سے پہلے نجم سیٹھی بھی ایک پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ حکومتی وزرا لوگوں کو کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم نے آرمی چیف کو توسیع کی پیشکش کر دی ہے اور اب سب معاملہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ نجم سیٹھی نے کہا تھا کہ یہ انتہائی غلط حرکت ہے کہ میڈیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ سارا معاملہ محض ایک ایکسٹنشن کا ہے۔