مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ قوم انصاف کی بد ترین تذلیل پر احتجاج کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آج ایسے مقدمے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا بہت گہرا تعلق پاکستان کے آئین قانون اور جمہوریت اور موجودہ حکومت کے وجود کے قانونی جواز سے ہے۔ یہ ایک بہت صاف اور سیدھا مقدمہ گزشتہ 6 سال سے الیکشن کمیشن میں لٹکا ہوا ہے اور فیصلہ اس لیئے نہیں ہو رہا کہ کٹہرے میں کھڑے شخض کا نام نواز شریف نہیں عمران خان اور جماعت کا نام ن لیگ نہیں پی ٹی آئی ہے۔
آپکو یاد ہوگا کہ 2017 میں ایک منتخب وزیر اعظم یعنی مجھے نکالنے کے لیے کس تیزی سے کارروائی ہوئی تھی؟۔ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے وٹس ایپ کے ذریعے ایک جے آئی ٹی قائم کی جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا۔ اور ہھر کس طرح ساٹھ دنوں میں جے آئی ٹی کو رپورٹ دینے کا حکم دیا گیا اور پھر کس تیزی سے میرے خلاف فیصلہ آیا۔ اور پھر کیسے بیٹے کی کمپنی کے اقامے کی بنیاد پر برطرف کردیا گیا۔ آپ کو سب یاد ہے؟۔
آپ نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح احتساب عدالت کو پابند کیا گیا کہ 6 ماہ میں فیصلہ دیا جائے اور پھر کس طرح چابک مارنے کے انداز سے عدالت پر بھی ایک سپریم کورٹ کا نگران جج بیٹھا دیا گیا۔ یہ بھی آپ کی نظروں کے سامنے ہوا۔ پھر کہا گیا کہ احتساب عدالت اتوار کی چھٹی بھی نہ کرے۔ اور احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو بطور احتساب عدالت جج ایکسٹینشن بھی دے دی گئی۔ یہ تھا تصویر کا ایک رخ اب آتے ہیں دوسرے رخ کی طرف۔ یہ رخ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی غیر قانونی فارن فنڈنگ کی تحقیقات کے لیئے ایک ۔مقدمہ 2014 میں درج ہوا۔ یہ مسلم لیگ ن یا کسی اور اپوزیشن جماعت نے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے بانی رکن نے کیا۔ اپنے سینے پر صادق و امین کا تمغہ سجائے یہ شخص عمران خان جو یہ کہتے تھکتا نہیں تھا کہ احتساب میری ذات سے شروع کیا جائے اب اپنے اقتدار اور سرپرستوں کی حمایت سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ خود ہے۔ اس کیس کی 70 سے زائد سماعتیں ہو چکیں ہیں۔ اب تک 8 بار وکیل تبدیل ہوا الیکشن کمیشن کے 20 آرڈرز کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا۔ جس میں پی ٹی آئی کو رقوم کی تفصیلات بتانے کا کہا گیا تھا۔ ٹال مٹول کے لیئے اعلیٰ سطحی عدالتوں میں 6 مختلف درخواستیں دائر کیں تاکہ کیس سنا ہی نہ جایا جا سکے۔
مارچ 2018 میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کی جانچ پڑتال کے لیئے ایک سکروٹنی کمیٹی قائم کی اور حکم دیا کہ ایک ماہ میں رپورٹ دی جائے۔ پتہ نہیں کہ یہ نورا کشتی تھی یا کیا تھا آج اڑھائی سال ہوگئے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اکتوبر 2019 میں الیکشن کمیشن نے ایک آرڈر میں لکھا کہ یہ کیس تاریخ میں قانونی عمل کی تذلیل کی ایک بد ترین مثال ہے لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔
اب ساتویں سال میں عمران خان نے تسلیم کر لیا ہے جیسا کہ آپ نے سنا ہوگا کہ فارن فنڈنگ میں خرابیاں ہوئی ہیں۔ لیکن حسب عادت اسکی ذمہ داری اپنے ایجنٹوں پر ڈال دی ہے۔ اور کہا ہے کہ ان ایجنٹوں نے کچھ کیا ہوگا۔ بھائی یہ ایجنٹ کوئی راہ چلتے لوگ نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ امریکا میں پی ٹی آئی کے نام پر رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں۔ جو عمران خان کے حکم سے وجود میں آئیں اور اسی کی نگرانی میں چلایا جاتا رہا۔ سٹیٹ بینک نے تحریک انصاف کے 23 اکاونٹس کی معلومات الیکشن کمیشن کو دی ہیں۔ عمران خان نے ان میں سے 15 کو چھپایا اور فراڈ کے ساتھ الیکشن کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے مزید یہ ہے کہ انہوں نے نہ ہی رقم بتائی نہ کوئی منی ٹریل دی اور نہ ہی کوئی رسید پیش کی۔ شفافیت کا ڈھول پیٹنے والے عمران خان کے مالی معاملات میں شفافیت کا وجود ہی نہیں۔
پاکستانی قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ کتنا پیسہ جمع ہوا کہاں گیا۔ اگر کوئی اس میں کرپشن نہیں ہوئی تو انہیں چھپایا کیوں گیا؟کیا یہ مشکوک اکاونٹس منی لانڈرنگ کے زمرے میں نہیں آتے؟ منی ٹریل کدھر ہے۔ الیکشن کمیشن کو تفصیل دینے سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے؟ گو کہ اس کیس کے حقائق کے حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن قوم کو اندھیرے میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔ اس میں شک ہی نہیں کہ عمران خان مجرم ہے۔ لیکن فرار کے لیے اپنے جرم کو ایجنٹوں کے سر ڈال رہا ہے۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے کیوں تاخیر کر رہا ہے؟
جب کہ سب ثبوت موجود ہیں اور عمران خان جواب نہیں دے پایا ہے۔ یہ انصاف کی رسوائی و پامالی کی شرمناک کہانی ہے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کی اس واردات کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ قوم اس پر احتجاج کرتے ہیں۔ یہ احتجاج الیکشن کمیشن کی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور کوتاہی ہر ہے اور ساتھ ہی ان کے خلاف بھی جنہوں نے اس نا اہل ترین شخص کو ملک پر مسلط کرنے کے بعد اسکی لوٹ مار چوری بددیانتی کی پردہ پوشی کو اپنی ذمہ داری بنا لیا ہے۔ پی ڈی ایم نے 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں پوری قوم شریک ہو کر ملک کو اس نا انصافی سے آزاد کرائے۔