کراچی میں نالوں کی صفائی ایک خواب: شہر کا 50 فیصد کچرا نالوں میں جاتا ہے

کراچی میں نالوں کی صفائی ایک خواب: شہر کا 50 فیصد کچرا نالوں میں جاتا ہے
 

 

بارہا دیکھا گیا کہ شہر کراچی میں نالوں کی صفائی کا عمل شروع ہوا مگر پایہء تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔اسکی  دو بنیادی وجوہات ہیں ایک یہ کہ جو صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے وہ  صرف سال  میں ایک سے دو بار ہوا کرتا ہے بالخصوص مون سون کی بارشوں سے قبل یا بعد میں جب  انتظامیہ متحرک نظر آتی ہے  ورنہ سارا سال وہ خواب غفلت میں رہتے ہیں۔بلکہ جو صفائی کی بھی جاتی ہے اس کا عالم یہ ہے کہ نالوں سے نکالا گیا کچرا اپنے آخری مقام تک نہیں پہنچایا جاتا بلکہ اسے نالے کے ہی کنارے پر ڈھیر کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے باعث زیادہ تر وہ واپس نالے میں چلا جاتا ہے۔  یہی وجوہات ہیں کہ  اس شہر میں ہم نے تو جب دیکھا یہی دیکھا کہ   شہر کے نالے کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی والے شہر میں صفائی کی صورتحال ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔



 

یہ حقیقت ہے کہ کراچی کےشہری سیلاب میں ڈوبنے  کا مسئلہ شہر کے کچرے سے شروع ہوتا ہے اور نالوں کی صفائی کے ناقص نظام پر ختم ہوتا ہے اور سال بہ سال یہ صورتحال اور خراب  تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ ہمارے سامنے ہے کہ شہر میں کوڑا کرکٹ  مکمل طور پر نہیں اٹھایا جاتا ہے ، اور زیادہ تر یہ شہر کے نکاسی آب کے نظام  یعنی نالوں میں  جاتا ہے ۔

اس وقت شہر کراچی میں41 بڑے برساتی نالے ہیں اس میں سے 25 نالے لیاری ندی میں گرتے ہیں اور 9 نالے ملیر ندی میں گرتے ہیں جبکہ 7 نالے  سیدھے سمندر میں گرتے ہیں۔ برساتی نالوں کا مروجہ طریق کار یہ ہے کہ عام دنوں میں یہ خشک ہوں اور بارش کے دنوں میں یہ کارگر ہوں اور بارش کے پانی کو بلا رکاوٹ سمندر تک پہنچا سکیں۔ ان تمام بڑے برساتی نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح 510 چھوٹے  نالے شہر کراچی میں موجود ہیں، جن کی صفائی بلدیہ عالیہ کراچی شرقی، غربی، وسطی، کورنگی، ملیر  ،کیماڑی اور جنوبی  کی ذمہ داری ہے۔

شہر کراچی کی بدقسمتی ہےکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نااہل انتظامیہ نے شہر کے سیوریج کے نالوں کو برساتی نالوں میں ڈال دیا اور سیوریج نالوں کی صفائی اور بہتر کارکردگی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سر منڈھ دیں، جس کے باعث برساتی نالوں کے مضبوط سلسلے کے باوجود آج ہم شہری سیلاب اور بارش کی دیگر تباہ کاریوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ چونکہ کراچی کے بیشتر اضلاع میں کچرے کو اٹھانا اور تلف کرنا   سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے مگر وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں

جبکہ دوسری جانب شہر میں  کچرا اٹھانے اور تلف کرنے کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب عوام نے کچرا نالوں میں ڈالنا شروع کردیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ کراچی کا 50 فی صد کچرا شہر کے نالوں میں جاتا ہے جس کے سبب نالے کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شہر کا کچرا  نالوں میں جانے کی ایک اور بڑی وجہ  ڈمپنگ سائیٹ کا دور ہونا بھی ہے  جوکہ کراچی کے شہر کے وسط سے تقریبا  40 کلومیٹر دور واقع  ہے جسے جام چاکرو لینڈفل سائٹ  کہا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر میں ایک بھی ایسی  لینڈ فل سائیٹ نہیں جو تکینکی  تقاضوں کے مطابق ہو۔

 جس طرح شہر کراچی کی آبادی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ اس شہر کی حقیقی آبادی کتنی ہے اسی طرح کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ شہر کراچی میں یومیہ کتنا کچرا پیدا ہوتا ہے جو ہے بس اندازے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر یہ  حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ  جتنا کچرا پیدا ہوتا ہے ہمارے ادارے اسے جمع  کرنے اور تلف کرنے میں ناکام ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس کل ملا کر بھی اتنی جگہ نہیں کہ تمام شہر کا کچرا جہاں تلف کیا جا سکے۔ کیونکہ  جام چاکرو لینڈ فل پر  قریب 6500 ٹن کچرا اور حب ندی کے قریب گونڈا پاس لینڈ فل پر قریب 1000ٹن کچراپھینکنے کی جگہ موجود ہے۔ ان دونوں  مقامات کے بھر جانے کے بعد بھی باقی کچرا  ہمیں شہرمیں بکھرا نظر آئے گا ۔

کیونکہ برساتی نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمہ داری ہے اس لئے باوجود اس کے کہ  شہر کا سیوریج انہی نالوں سے گزر رہا ہےمگرکراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ  نے کبھی ان کی صفائی میں حصہ نہیں لیا  جوکہ ان برساتی نالوں میں سلٹ جمع ہونے کا باعث بن رہا ہے۔اس سارے معاملے میں   سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بھی  کہیں نظر نہیں آتا  جب کہ ان کے ذمے کا 50  فی صد کچرا  ان نالوں کو بھر رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ممبران کے مطابق شہری سیلاب ان کے محکمہ کا مسئلہ نہیں ہے۔

اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ شہر کے کچرے کے انتظام کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی جبکہ ماہرین شہری منصوبہ بندی بارہا اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ کراچی کے نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے نالوں کی صفائی سے قبل شہر کے کچرےکے انتظام کو بہتر اور موثر بنانا  نا گزیر ہے ۔  بعد ازاں ضروری امر یہ ہے کہ ان نالوں کی تواتر سے صفائی اور مرمت کا خیال کیا جائے نہ کہ سال میں ایک بار مون سون سے قبل یا بعد میں ان کی خبر لی جائے۔

شہر کے کچرے کے انتظام کی بہتری  اور نالوں کو ڈی سلٹ کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کو طویل مدتی حل کی ضرورت ہے  جس کے تحت یہ صفائی کا سلسلہ قائم رہے۔ ماہرین شہری منصوبہ بندی کے مطابق واحد حل یہ ہے کہ شہر کے کچرے کو ضائع کرنے کا مناسب نظام تیار کیا جائے۔ دوسری جانب  کراچی میں نکاسی آب کے پائپ اب انتہائی پرانے ہوچکے ہیں  ان کو دوبارہ تعمیر کرنے یا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ موجودہ صورتحال میں  یہ صرف ایک خواب نظر آتا ہے کہ ہم شہر کراچی  کے نالوں کو صاف کر کے اس شہر کو ڈوبنے سے بچا سکیں گے۔

 

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے