خضدار؛ حلقہ بندیوں میں رد و بدل سے نمائندے اور عوام تذبذب کا شکار

حتمی فیصلے کے بعد توتک کے عوام کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا کہ جو سیاسی پارٹی ان کے علاقے کو نظرانداز کرتی رہی اور جس نے توتک کو اپنے حلقے سے نکالنے کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا وہ اب ہم سے ووٹ لینے کس طرح آئیں گے۔

خضدار؛ حلقہ بندیوں میں رد و بدل سے نمائندے اور عوام تذبذب کا شکار

ضلع خضدار کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں غیر حتمی حلقہ بندیوں سے حتمی حلقہ بندیوں تک رد و بدل ہوتا رہا۔ اس دوران نا صرف ووٹرز تذبذب کا شکار رہے بلکہ پی بی 18، پی بی 19 اور پی بی 20 سے الیکشن لڑنے والے امیدوار بھی پریشانی میں مبتلا نظر آئے۔

ڈسٹرکٹ خضدار کی قومی اسمبلی کی ایک نشست پر حلقہ بندی ماضی کی طرح برقرار رہی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ تاہم صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 18 ون، حلقہ پی بی 19 ٹو اور حلقہ پی بی 20 تھری پر حلقہ بندیاں تبدیل ہوتی رہیں۔ الیکشن کمیشن نے مردم شماری 2023 کے تحت جب ابتدائی حلقہ بندی کے نتائج جاری کیے تو اس میں پی بی 18 خضدار ون میں باغبانہ، زہری، مولہ اور کرخ کے علاقوں کو رکھا گیا، پی بی 19 خضدار ٹو میں خضدار سٹی، توتک، نال، گریشہ، گھروک، ہزار گنجی اور کودہ کوڑاسک کے علاقوں کو شامل کیا گیا جبکہ پی بی 20 خضدار تھری میں وڈھ، اورناچ، زیدی، آڑینجی، درنیلی اور سارونہ کے علاقے شامل کیے گئے۔ سیاسی جماعتوں نے ان حلقہ بندیوں پر الیکشن کمیشن میں اعتراضات جمع کروا دیے۔

جمعیت علمائے اسلام نے درخواست دی کہ جس طرح 2018 کے الیکشن میں حلقہ بندیاں کی گئی تھیں حالیہ انتخابات میں بھی انہیں ویسے ہی برقرار رکھا جانا چاہیے جبکہ نیشنل پارٹی نے توتک کو پی بی 19 خضدار ٹو سے نکالنے اور درنیلی کو شامل کرنے کی رٹ لگا رکھی تھی۔ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے توتک، گھروک، ہزار گنجی اور گریشہ کو خضدار سے نکالنے کی درخواست دائر کی تھی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے پی بی 20 سے زیدی کا علاقہ نکالنے کی درخواست دی تھی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ گروپ جائن کریں

الیکشن کمیشن نے 30 نومبر کو ان اعتراضات پر حتمی فیصلہ دیتے ہوئے پی بی 18 خضدار ون میں زیدی کو شامل کر دیا جو کہ غیر حتمی حلقہ بندیوں کے تحت پی بی 20 خضدار تھری میں شامل تھا اور پی بی 19 پر فیصلہ دیتے ہوئے گھروک اور ہزار گنجی کو پی بی 19 خضدار ٹو سے نکال کر پی بی 20 تھری میں شامل کر دیا اور حتمی حلقہ بندیوں کا اعلان کر دیا۔ ان حلقہ بندیوں کے خلاف سیاسی جماعتوں نے ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا جس میں نیشنل پارٹی نے درخواست دی کہ پی بی 19 خضدار ٹو سے توتک علاقے کو نکالا جائے اور گھروک و ہزار گنجی اور درنیلی کو پی بی 20 خضدار تھری سے نکال کر پی بی 19 خضدار ٹو میں شامل کیا جائے جبکہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ پی بی 19 سے گریشہ کو نکال کر مشکے میں لگا دیا جائے۔ چنانچہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے توتک علاقے کو پی بی 19 خضدار ٹو سے نکال کر پی بی 18 خضدار ون میں شامل کر دیا اور اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس کے بعد اسی ہفتے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا اور انہوں نے ہائی کورٹ کے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 30 نومبر کو الیکشن کمیشن کے حتمی حلقہ بندیوں والے فیصلے کو درست قرار دے یا۔ اب 8 فروری کو الیکشن کمیشن کی جانب سے 30 نومبر کو جاری کی گئی حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن ہونا ہے۔

اس دوران سب سے زیادہ توتک کے عوام تذبذب میں مبتلا رہے۔ کسی سیاسی جماعت نے ان کو اپنے ساتھ رکھنے تو کسی نے ان کو اپنے حلقے سے نکالنے کی ٹھان لی۔ یوں توتک کو تین مرتبہ ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں رکھنے اور نکالنے کا عمل جاری رہا۔

نیشنل پارٹی اس بنا پر مخالفت کرتی رہی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ توتک خضدار پی بی 19 میں رہنے سے ان کا نقصان ہوگا کہ توتک میں ان کے ووٹرز کم ہیں جبکہ پیپلز پارٹی خصوصاً نواب ثناء اللہ خان زہری گروپ کی جانب سے بھی اسی طرح کی خواہش کی گئی تھی کہ توتک ان کے حلقے سے نکلے چونکہ توتک خضدار سٹی سے قریب ہے تو یوں اس کو پی بی 19 میں ہی ہونا چاہیے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام سے منتخب سابق ایم پی اے میر یونس عزیز زہری کی کوشش تھی کہ توتک پی بی 19 خضدار ون میں ہو تا کہ توتک میں جمعیت کا جو ووٹ بنک ہے وہاں سے ووٹ انہیں ملیں۔

حتمی فیصلے کے بعد توتک کے عوام کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا کہ جو سیاسی پارٹی ان کے علاقے کو نظرانداز کرتی رہی اور جس نے توتک کو اپنے حلقے سے نکالنے کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا وہ اب ہم سے ووٹ لینے کس طرح آئیں گے۔

توتک کے رہائشی ابراہیم قلندرانی کے مطابق ان کا علاقہ اس دور میں پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ سابق حلقہ بندیوں میں توتک پی بی 18 کے ساتھ رہا، اس دوران ان کے لیے کوئی خاص ترقیاتی کام نہیں ہوا اور اب پی بی 19 کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔ اب الیکشن میں ہم کس سے سوال کریں کہ ہمیں کیوں پسماندہ رکھا گیا کیونکہ ووٹ مانگنے کے سلسلے میں آنے والے جس بھی امیدوار کو ہم کہتے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے اس کے ہم قصوروار نہیں کیونکہ توتک پہلے ہمارے ساتھ نہیں تھا، آپ لوگ ووٹ کر کے کامیاب بناؤ تب ہم کام کریں گے۔

خضدار پی بی 19 سے تین مضبوط امیدوار میدان میں ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام سے میر یونس زہری، نیشنل پارٹی سے سردار اسلم بزنجو اور پیپلز پارٹی سے آغا شکیل احمد امیدوار ہیں۔ ہر ایک کی نظر توتک پر ہے لیکن وہ ایک ٹرانسفر دینے تک انکاری ہیں کہ ہم کامیاب ہونے کے بعد ہی توتک کو پیرس بنائیں گے، ابھی نہیں بنا سکے۔ ان تینوں امیدواروں میں سے کسی کو یقین نہیں کہ ان کو توتک سے ووٹ مل سکتا ہے کہ نہیں، اسی تذبذب میں توتک کے عوام کے لیے کچھ نہیں ہو رہا۔

محمد اقبال مینگل گذشتہ چھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔وہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ہیں اورچینل 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔