Get Alerts

رات خوشبو کے کسی دیس سے ہو آیا ہوں

رات خوشبو کے کسی دیس سے ہو آیا ہوں

رات خوشبو کے کسی دیس سے ہو آیا ہوں 


روح اوڑھے ہوئے بیٹھی ہے وہ خوشبو چادر


اور اُجلے سے وہ پتے میری آنکھوں پہ گرے


میں کہیں بھول نہ جاؤں وہ اک ٹھنڈا جھرنا


جس کے چھینٹوں نے چُھوہا تھا میرا اُبلا سینہ


مجھ کو کچھ یاد ہے مدھم سا وہ سُر کا سنگم 


ان سنے گیت، وہ رس گھولتی نظمیں، غزلیں


تھی تصور کی وہ دنیا تو اُسے ہونے دو


کچھ پہر رنگ رہا یہ کوئی نعمت کم ہے؟


اب جو جاگا ہوں تو اک آگ کا دریا آگے


درد ہی درد ہے، اک رنج بپا رہتا ہے


مجھ کو خوشبو کے اُسی دیس میں جا بسنا ہے 


یہ جو کچھ دیر کی ظلمت ہے گزر جائے گی