قبائلی اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو عدالتی اختیارات دینا، کیا ایف سی آر کے کالے قانون کی واپسی ہے؟

قبائلی اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو عدالتی اختیارات دینا، کیا ایف سی آر کے کالے قانون کی واپسی ہے؟
خیبرپختونخوا حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنرز کو ان کے دائرہ اختیار کے علاقوں کے لیے جسٹس آف پیس مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کے نیم بندوبستی علاقوں کو دیکھنے والے ڈپٹی کمشنرز کو بھی ان اختیارات سے نوازا گیا۔

حکومت خیبرپختونخوا نے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 22 کے تحت ڈپٹی کمشنرز کو ان اختیارات سے نوازا۔ اس سلسلے میں محکمہ داخلہ وقبائلی امور خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ضم اضلاع میں حال ہی میں متعارف کرائے گئے پولیس نظام کو اپنانے میں عوام کو درپیش مسائل، خاص طور پر ایف آئی آر کے اندراج، دستاویزات کی تصدیق اور قانونی مقاصد کے لیے ذاتی شناخت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔

مگر قبائلی اضلاع کے انسانی حقوق کے کارکن اور قانونی ماہرین ان اختیارات کو آئین کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں اور موقف اپناتے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں ضابطہ فوجداری کے سیکشن 22 اے اور بی کے اختیارات عدلیہ کے پاس ہوتے ہیں مگر قبائلی اضلاع میں یہ اختیارات ڈپٹی کمشنرز کو دیئے گئے ہیں جو کہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی چیئرمین اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سابقہ فاٹا کو پہلے بھی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور ضم ہونے کے بعد دوبارہ ان کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور حکومت روز نئے تجربے کررہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ باؤجود اس کے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ان بورڈ کرکے مشاورت کی جائے یکتہ طرفہ فیصلے سامنے آجاتے ہیں۔ محسن داوڑ نے مزید کہا ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ قبائلی اضلاع کو جو صوبے کے ساتھ ضم کیا گیا تھا اس عمل کو دوبارہ پٹڑی سے اتارا جارہا ہے۔

اس قانون کے تخت بااختیار ڈپٹی کمشنرز قابل دست اندازی جرائم میں گرفتاریوں کے معاملات میں پولیس اور عدالتوں کی مدد بھی کریں گے۔ ضم اضلاع میں امن و امان کی خلاف ورزی یا لوگوں کی امن و امان  میں خلل کی روک تھام کے لیے ڈی سی اب قانونی طور پر ذمہ دار ہوں گے۔

پشاور ہائیکورٹ کے وکیل اور قبائلی اضلاع میں قانون سازی پر نظر رکھنے والے وکیل علی عظیم آفریدی کہتے ہیں کہ سی آر پی سی 1898 کے تحت ملک کے دیگر اضلاع میں یہ اختیار عدلیہ کے پاس ہوتے ہیں مگر قبائلی اضلاع میں یہ اختیارات ڈپٹی کمشنرز کو دینا آئین کے آرٹیکل 175 سب سیکشن تین کی خلاف ورزی ہے اور قبائلی اضلاع کے لئے جاری کئے گئے اس اعلامیے کے خلاف عدالت جائینگے اور اس کو چیلنج کرینگے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پورے ملک میں انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات ایک دوسرے سے الگ الگ ہے مگر قبائلی اضلاع میں یہ اختیارات دینا آئین کی خلاف ورزی ہے جس کا ہر صورت میں میں قانونی طور پر مقابلہ کیا جائے گا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں ممبر صوبائی اسمبلی نثار مہمند کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو عدلیہ کے اختیارات دینا اگر اتنا سودمند اور فائدہ مند ہے تو پھر پورے ملک کے ڈپٹی کمشنرز کو ان اختیارات سے نوازا جائے۔

نثار مہمند کہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنرز کو اتنے اختیارات سے تو ایف سی آر کے دنوں میں نوازا گیا تھا لیکن ایک بار پھر بیوروکریسی کو اختیار دیئے جا رہے ہیں جو غیر آئینی ہیں اور وہ صوبائی اسمبلی میں اس نکتے پر آواز اٹھائینگے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔