نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے
تحریر: (ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ) ہمارے معاشرے کا ایک بگڑتا ہوا ناسور ؟ایک ایسی چوری اور گداگری جس کا شکار پڑھا لکھا اورمعزز طبقہ بھی ہے!

فخر ایک شرارتی لڑکا تھا۔ وہ پڑھائی میں بالکل دلچسپی نہ لیتا، دن بھر نت نئی شرارتوں کے منصوبے بنایا کرتا، کبھی کسی کے دروازے کی گھنٹی بجا کربھاگ جانا تو کبھی کسی جانور کو اذیتیں دینا، کسی خوانچہ فروش کی نقل کرنا یا کسی بھکاری کو زچ کرنا۔

حتی کہ اسکول میں بھی اس کا ذہن شرارتوں ہی کی طرف مائل رہتا۔ وہ کبھی ایک طالب علم کی چیزیں چھپا کر کسی دوسرے کے بستے میں ڈال دیتا، کلاس میں ہوٹنگ کرتا، جماعت کے نظم و ضبط کو خراب کرتا، سکول کے چوکیدار کو تنگ کرتا، الغرض نت نئی سازشیں، نت نئی چالیں۔ اگر اس کے اساتذہ اور والدین اس کی توجہ تعلیم کی طرف دلاتے تو انہیں سہانے خواب دکھا دیتا۔ اپنی فرضی محنت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا، وہ امتحانات کے سلسلے میں بہت پرامید بلکہ پراعتماد تھا۔ اساتذہ بہرحال اس کے سال بھر کے طرز عمل اور محنت سے بخوبی آگاہ تھے۔ ایک استاد نے اس کے سامنے جناب سید ضمیر جعفری کی نظم کا یہ بند بھی پڑھ ڈالا۔

رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے

کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے

کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے

نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا

معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا

لیکن وہ فخر ہی کیا جس کا سر ندامت سے جھک جائے وہ بھی اپنی دھن کا پکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بہت ذہین ہے اوراپنی ذہانت کے استعمال سے وہ نقل کے لئے ایسے نئے نئے حربے آزمائے گا جن کا توڑ کسی کے پاس نہ ہوگا۔ کوئی جان بھی نہ سکے گا اور وہ اس نقل سے نہ صرف پاس ہو جائے گا بلکہ اعلیٰ نمبر حاصل کر لے گا۔ سالانہ امتحان کے آغاز سے قبل جب اس کے ایک دوست نے امتحان کی تیاری کے متعلق استفسار کیا تو اس نے استہزائیہ انداز سے کہا کہ مکمل تیاری ہے۔ نیا یونیفارم، نئے جوتے، نیا قلم الغرض تمام اشیاء بالکل نئی خرید چکا ہوں۔ اب صرف امتحان کا انتظار ہے۔

جب امتحان کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پہلے پرچے کے دوران مکمل تیاری کے ساتھ گیا لیکن پرچہ اس کی توقعات کے برعکس نکلا یعنی اس کے لائے ہوئے کارتوس ناکارہ ثابت ہوئے۔ جب پرچہ توقع کے برعکس دیکھا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے ادھر ادھر جھانکنا شروع کردیا۔ کبھی کسی سے سوال کرے کبھی کسی سے کچھ مانگے، التجا کرے۔ اس کے استاذ نے جب اسے اس طرح التجاء کرتے اوردوسروں سے مانگتے دیکھا تو کہا تم اگر سال بھر محنت کرتے تو آج دوسرو ں سے بھیک نہ مانگ رہے ہوتے بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے پر اب امتحان دے رہے ہوتے۔ یوں فخر کو سب کے سامنے خفگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس عمل سے توبہ کرنے کے بجائے وہ اپنے ذہن میں کوئی اور ہی منصوبہ بنا رہا تھا کہ کل میں مزید تیاری سے آؤں گا اور مجھے کسی سے کچھ مانگنا نہ پڑے گا ۔

اگلے دن اس نے ساری رات بیٹھ کر بہترین انداز سے نقل کی تیاری کی۔ اس نے نوٹس بنانے کے علاوہ اپنے رومال، جراب، آستینوں، دامن الغرض ہر دستیاب جگہ پر شارٹ ہینڈ کی طرز پر اپنی علامات بنائیں اور بہت ہی باریک بینی سے کشیدہ کاری کی۔ اس نے یہ تمام کام اس قدر مہارت سے کیا کہ اس کے علاوہ کوئی اور اس تحریر کو اول تو پڑھ ہی نہ سکتا تھا اور سمجھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہرحال اس تمام تر جدوجہد کے بعد صبح جب وہ میدان کارزار میں داخل ہوا تو بہت مطمئن اور مسرور تھا۔ امتحان گاہ پہنچ کر اس نے سب سے پہلے اپنے چشمے کی طرف ہاتھ بڑھایا کیونکہ اس کی قریب کی نظر کمزور تھی۔ لیکن یہ کیا، جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے کہ وہ اپنی نظرکا چشمہ لانا تو بھول ہی گیا تھا۔ اب وہاں بیٹھ کر وہ صرف اپنی بے بسی پر آنسو بہا سکتاتھا! اچانک اسے کین نسبت (Kenn Nesbitt) کی نظم This Morning is Our History Testیاد آئی جس کے آخری بند میں اس ہی کیفیت کو بیان کیا گیا تھا جس سے آج وہ گزر رہاتھا۔

I came to school so well prepared.
I wasn’t nervous, wasn’t scared.
But here it is, the history test.
I look inside my coat and vest
to get the dates and famous quotes
and find I cannot read my notes.
So much for Shakespeare, Greece and Rome.
I left my glasses back at home.



لیکن وہ فخر ہی کیا جو نامساعد حالات سے گھبرا کر پسپائی اختیار کر لے۔ اور ویسے بھی امتحان کے دنوں میں تیاری نہ ہونے کے سبب اس کے پاس اور کوئی حل بھی نہ تھا۔ اگلے دن وہ فخریہ انداز سے ہر طرح کی بوٹی اور کارتوسوں سے لیس کمرہ امتحان میں داخل ہوا۔ ہاں اور اپنا چشمہ لانا وہ ہرگز نہ بھولا۔ پرچہ سامنے آتے ہی اس کا ذہن بڑی تیزی سے کام کرنے لگا کہ کون سا سوال کہاں رکھا ہوا ہے۔ ابھی وہ بمشکل سوالوں کے جواب ہی ڈھونڈ پایا تھا کہ اچانک معلوم ہوا کہ آج اچانک بورڈ سے انسپیکشن کی ٹیم آگئی ہے۔ اب اس نے سوچا کیا کیا جائے۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھ ۔ٹیم نے اس کے کمرے میں بہت وقت لگایا۔ نگران بھی بہت مستعد اورچوکس تھے۔ اس کا قیمتی وقت برف کی مانند بڑی تیزی سے اس کے ہاتھوں سے پھسلتا رہا۔ جب اس نے وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس نے تمام ترخوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑی رازداری اور خاموشی سے نقل کرنا شروع کی،  یہ کیا ابھی وہ پہلا سوال ہی کر رہا تھا کہ نگران نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔

وہیں پر انہوں نے ہیڈ ماسٹرصاحب کو بلا لیا۔ وہ نفسیات دان تھے اور قابل، لائق اور محنتی طلباء سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا کہ فخر تم چور کب سے بن گئے؟ اس نے کہا میں نے تو کبھی چوری نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے۔ نقل کرنا اوراس میں معاونت کرنا ایک گناہ عظیم ہے۔ یہ ایسی لعنت ہے جو کئی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ ظلم اور ناانصافی ہے۔ حقوق العباد کی حق تلفی ہے۔ نقل کی مدد سے اگر کوئی ڈگری حاصل بھی کر لے تاہم تعلیم وتربیت کی اصل روح یعنی وہ خوداعتمادی، عزت نفس، اطمینان قلب و سکون نفس سے یکسرمحروم رہے گا۔ الغرض نقل صرف معاشرے کو علمی اعتبار سے ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ایک ایسے ناسور کی مانند ہے جس سے مواد رِس رِس کر پورے معاشرے کو تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی ، مذہبی، شخصی اور اجتماعی طور پرکرپٹ کر دیتی ہے اور ملک وقوم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

پھر نے انہوں نے مزید فرمایا کہ اتنا بڑا گناہ اورچوری کرنے کے باوجود تم جھوٹ بھی بولتے ہو اور جھوٹ بھی ایسا جو پوری زندگی پر محیط ہو کیونکہ جب تم کہتے ہو کہ میں نے اتنے نمبر حاصل کیے ہیں تو یہ صریح جھوٹ ہے کیوں کہ تم ان نمبروں کے اہل تو قطعا نہ تھے نیز تم اس ملک و قوم کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان کی بنیاد رکھ رہے ہو۔
فخر نے پوچھا وہ کیسے:

ہیڈماسٹر صاحب نے فریایا : ذرا غور کرو اگر یہ شخص ناقص علم، ادھوری معلومات اور بے ترتیب انداز سے واقعی کسی سخت مشکل پیچیدہ معاملے میں الجھ جاتا ہے تو یہ کس قدر نقصان دہ ہو گا۔ دیکھو اگر کوئی شخص نقل کر کے ڈاکٹر بن بھی جائے تو وہ اس وقت مریضوں کی جانوں سے کھیل رہا ہو گا جس کے لئے یہ محاورہ تم نے ضرور سنا ہو گا ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ نیز جان لو’ اس قبیل کے تمام ناہل افراد جس بھی میدان کارزار میں حصہ لیں گے وہاں فساد اور بگاڑ کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے‘‘ نقل کر کے امتحان پاس کرنے والے کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے یہ شخص اس سند کا حامل ہے اور ضرور اس شخص میں ان معاملات کو حل کرنے کی قابلیت ہو گی۔ اس اعتماد کے ساتھ جب اس کے سپرد معاملات کئے جاتے ہیں تو یہ تعلیم یافتہ شخص ایک ایسے دانا (نادان دوست) کی طرح معاملات حل کرتا ہے جیسا اس تمثیل میں ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص بلند وبالا درخت پر چڑھ گیا اور بلندی دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے اور اس کے لئے نیچے اترنا ناممکن ہو گیا اس وقت ایک نام نہاد دانشور کو بلایا گیا جس نے اپنے تئیں انتہائی فراست کے ساتھ حکم دیا کہ ایک رسی لائی جائے اوراس شخص سے کہا تم اس رسی کو اپنی کمر سے باندھ لو۔ جب اس نے باندھ لی تو دو آدمیوں کی مدد سے بلندی پر موجود شخص کو تمام ترقوت کے ساتھ کھینچا ۔پھر وہی ہوا جو ہونا تھا اس کی لاش کے پاس بیٹھ کر یہ حضرت کہتے ہیں کہ میں نے بارہا کنوئیں سے آدمی نکالیں ہیں آج تک کوئی نہیں مرا اس شخص کو کیا ہو گیا ، شاید اس کی قسمت ہی خراب تھی۔ تو بہرحال بیٹا اس قبیل کے آدمیوں سے اس قسم کے فیصلوں ہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں جعلی ڈگری ہولڈروں سے بچائیں اور ہمارے ملک اور قوم کے امور اہل اور باکردار افراد کے سپرد کرے۔ اس تمثیل کے بعد وہ دوبارہ فخر سے مخاطب ہوئے: اور سحرانگیز الفاظ میں کہا کہ" تم تو جھوٹے بھی ہو ، بھکاری بھی اور چور بھی" ۔یہ تمام الفاظ فخر کے دل پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ پوری کلاس کے سامنے اس طرح کی شرمندگی، رسوائی، بے وقعتی کا اس نے کبھی خواب میں بھی تصورنہ کیا تھا! لیکن اس کا ضمیر بیدار ہو چکا تھا اور اسے کچوکے لگا رہا تھا، چیخ چیخ کر پکار رہا تھا کہ واقعی استاد محترم صحیح فرما رہے ہیں۔ اس (نقل) کے لیے تمہیں دائمی جھوٹ کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے،  یعنی ایک برائی کئی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر تھوڑی سی محنت کر لیتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

استاد محترم کے ان بصیرت افروز واقعات اورحکیمانہ درس نے اس کی دل کی دنیا بدل دی۔ اب یہ سب باتیں سن کر وہ رونے لگا اوراس نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی ایسا نہ کرے گا بلکہ خوب محنت کرے گا۔اورواقعی اگلے سال اس نے ابتداء ہی سے انتہائی منظم انداز سے تعلیم کو وقت دیا۔ تمام شرارتوں سے توبہ کی ۔ اور پھر جب سالانہ نتیجہ آیا تو واقعی وہ نہ صرف اعلیٰ نمبروں سے پاس تھا بلکہ پورے اسکول نے اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اب تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔

ہیڈماسٹر صاحب نے کہا بیٹا اب آپ کو سچی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ اس مقام کو آپ نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے اب آپ فخر سے کہہ سکتے ہو کہ میں نے امتحان میں پہلی پوزیشن لی ہے اور آپ کا ضمیر آپ کو کچوکے نہیں مارے گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔فخر نے دل کی گہرائی سے ہیڈماسٹرصاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اسے ڈانٹنے یا مارنے کے بجائے اس کی اصلاح کی اورآج کی اس کامیابی کا ذریعہ بنے۔