میں نہیں جانتا کہ غازی یونیورسٹی ڈیره غازیخان میں زیر تعلیم بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبہ سے ایسی کون سی خطا سرزد ہوئی کہ ان پر دو سال کے طویل دورانیے کے لئے علم کے حصول کے باب بند کر دیئے گئے اور لگے ہاتھوں پولیٹیکل سائنس کے ایک محترم استاد رفیق قیصرانی کو بھی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سے وابستہ طالبعلم مختلف سوچ کے حامل سیاسی کارکنوں سے اس شک کی بنا پر دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں وه ان کی سیاسی جدوجہد کا سودا کرکے ان کی منزل کھوٹی نہ کر بیٹھیں۔
مجھے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے ایک محترم استاد کو بلوچ طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیاں گراں گزریں اور انہوں نے یونیورسٹی گارڈز کے ہمراه بلوچ طلبہ کے ایک معمول کے سٹڈی سرکل پر دھاوا بول دیا۔ بعد کی تمام سرگرمیاں (سزائیں) بلوچ طلبہ اور ان سے ربط رکھنے والے اساتذه کو سوچنے اور بولنے کی جرات پر نشان عبرت بنانے کی خاطر کی گئیں۔
اس واقعہ پر نہ تو مجھے کوئی حیرانی ہوئی اور نہ ہی اس عمل میں مجھے کوئی غیر معمولی عنصر کار فرما نظر آتا ہے۔ یہ عمل صرف اس سوچ کا پرتو ہے کہ ہر صاحب اختیار آدمی اپنے آپ کو حب الوطنی کا معیار گردانتے ہوئے "ہر دوسرے" کو غیر محب وطن قرار دے کر اسے من مانی سزا دینے کا مکلف بھی سمجھتا ہے۔ بے اختیار افراد کبھی کبھار ہجوم میں ڈھل کر لمحاتی طاقت کے زعم میں جزا وسزا کے فیصلے سنانے کے منصب پر فائز ہو کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ یہ سب ہماری تاریخی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
یونیورسٹیاں تو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو مل بیٹھ کر ایسی سرگرمیوں کے لئے ماحول فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں جن کے ذریعے اختلافی نکتہ ہائے نظر کے گوناگوں مسائل پر علمی اور استدلالی بحث کے ذریعے تہذیبی اقدار کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔
یونیورسٹیوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا مل بیٹھ کر سٹڈی سرکلز کا انعقاد ایک معمول کی احسن سرگرمی شمار ہوتی ہے۔ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے بچوں سے ایک فاصلہ ہونے کے باوجود مجھے کامل یقین ہے کہ اس تنظیم کے بچے اخلاقی اور علمی حصول کی کاوشوں کے ہر پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ عاصم سجاد اختر اور عمار علی جان جیسے فاضل استاد ایسے ہی سرکلوں میں نوجوانوں کی تربیت کا خوبصورت ترین فریضہ انجام دیتے ہیں اور ان کے سرکلوں کا امتیازی وصف ان کی باقاعدگی اور صنفی امتیازات سے پاکیزگی ہے۔
موجوده وزیراعظم جب پنجاب میں خادم اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے تواس دور کے کسی ترقیاتی محمکہ کے بقراط نے کوه سلیمان کی تمام چٹانیں اپنے اس فلسفے کی ترویج کے لئے سیاه کر ڈالیں کہ "بھیڑ بکری پال بلوچا، ہو جا خوشحال بلوچا"۔ اسے شاید یہ خبر نہیں تھی کہ فطری ماحول میں مالداری کے جلو میں خون آشامی کا سلسلہ بھی چل پڑتا ہے۔
میں غازی یونیورسٹی ڈیره غازی خان کے عالم وفاضل استاتذه سے اپیل کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ وه ہمارے نوجوانوں کو مالداری کی طرف راغب کرنے کے بجائے انہیں ایک علمی اور جمہوری ماحول فراہم کرنے کا فریضہ سرانجام دیں تاکہ ہم پر مسلط صدیوں کی پسماندگی کے ازالے کا کوئی امکان روشن ہو سکے۔
یہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں اور کوئی بھی قوم اپنے مستقبل سے غافل نہیں ہو سکتی۔ ہم جہاں اپنی نوجوان نسل میں انسانی اور جمہوری اقدار پروان چڑھانے کا مشکل فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ وہیں ہم اپنے بچوں کے تمام انسانی، علمی، آئینی اور جمہوری حقوق کی حفاظت کے لئے بھی حساس اور پرعزم ہیں۔