ڈیرہ غازی خان کا نام ملکی سیاست میں تقریباً چار سالوں سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں جن کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے متعدد سیاسی رہنما تقریباً پو نے چار سال اقتدار کا مزہ لوٹنے کے بعد اب سڑکوں پر بیرونی سازش کا پرچار کر رہے ہیں اور اپنے لیڈر کی طرح اس چورن کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی دودھ اور شہد کی نہریں بہاتی ہوئی حکومت کو ایک بیرونی سازش کے تحت ختم کیا گیا۔
ڈیرہ غازی خان میں پی ٹی آئی کا سیاسی عروج اس وقت شروع ہوا جب 2018 کے الیکشن سے قبل کئی سیاسی رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ ان میں سے کئی سیاسی رہنماؤں کے پاس پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزارتیں بھی رہی ہیں۔ یہ سیاسی رہنما عوام کی زندگیوں میں تو کوئی تبدیلی نہ لا سکے مگر انہوں نے اپنے کاروبار کو خوب پھلایا اور ترقی سے ہمکنار کیا۔ اپنی وزارتوں کے مزے لوٹنے کے بعد اب یہ صدمے میں ہیں کہ انہیں آئینی طریقے سے کیوں نکالا گیا؟ یہ سیاسی شہادت کی تلاش میں تھے جو کہ ان کو نہ مل سکی۔
اب یہ حضرات مہنگائی سے دوچار عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان ایک عالمی مسلم رہنما ہے اور امریکہ نہیں چاہتا کہ وہ حکومت میں رہے۔ لہٰذا اپنی آزادی کے تحفظ کے لئے سب لوگ 21 اپریل کو لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے میں شرکت کریں۔ یہ سیاسی رہنما یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کی حکومت نے تقریباً پونے 4 سال کے اپنے دور اقتدار میں لوگوں کی بہتری کے لئے کیا کیا؟ یہ اب بھی عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ لوگ ان 4 سالوں میں ان کی بیڈ گورننس اور نااہلی کو بھول جائیں گے اور بیرونی سازش جیسے بھونڈے نعرے کے پیچھے لگ جائیں گے مگر اب ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اب لوگ جان چکے ہیں کہ نعرہ بازی اور خیالی تقاریر سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اب عوام اچھی حکمرانی، امن و امان، مہنگائی میں کمی اور معاشی خوشحالی چاہتے ہیں۔ بعض اوقات آخری ہیچکیاں زوال کی نشانی ہوتی ہیں جس کا اندازہ ڈی جی خان میں پی ٹی آئی کے سیاسی رہنماؤں کی سیاسی ملاقاتوں اور عوام کے ردعمل سے ہوتا ہے۔
لیڈر اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے، تقریروں سے نہیں اور جب لیڈر اپنے کردار کی عکاسی نہیں کر سکتا تو وہ غیر ملکی سازشوں کا بھونڈا نعرہ استعمال کرتا ہے۔ پھر چاہے اسے مذہب سے کھیلنا ہو یا آئین سے، وہ کھیلتا ہے۔ ارسطو نے کسی جگہ صحیح لکھا ہے کہ "انسان اپنے کردار کی بدولت فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتا ہے لیکن جب وہ گرنے پر آتا ہے تو اس کے زوال کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا"۔