‘جب میں کسی غریب کو کھانا کھلاتا ہوں تو مجھے نیک اور پارسا کہا جاتا ہے مگر جب میں سوال کرتا ہوں کہ غریب کے پاس کھانا کیوں نہیں ہے تو مجھے کیمونسٹ کہا جاتا ہے ۔’ (ہیلڈر کمارا)
سب سے پہلے تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ سوشلسٹ یا کیمونسٹ کا مطلب ہر گز لادین ہونا نہیں اور نا ہی اسکا تعلق کی مذہبی یا غیر مذہبی سوچ سے ہے بلکہ یہ خالصتاً ایک معاشی نظریہ ہے جو پورے سماج کو مذہبی و علاقائی تفریق کے بغیر معاشی برابری کی بات کرتا ہے۔ یہ نظریہ معاشرے کے امیر و غریب کی تفریق کو ختم کرکے سب انسانوں کو ان کی محنت کے درست اور جائز معاوضے کے حصول کی جدوجہد کا نظریہ ہے۔ اس نظام میں حکومت تمام شہریوں کو برابر معاشی حقوق دیتی ہے اور دولت چند ہاتھوں کی بجائے پورے معاشرے میں مساوانہ طور پر تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ نظام ترقی کرنے کیلئے تمام انسانوں کو برابر مواقع فراہم کرتا ہے اور کسی کی بھی محنت کا استحصال کرنے سے روکتا ہے ۔ سوشلزم کا نظریہ اس مزدور کے حق کی تائید کرتا ہے جو صبح شام ہماری ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تو پیدا کرتے ہیں مگر خود ان ضروریات سے محروم ہیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کسی برینڈ میں کام کرنے والا مزدور اپنے ہاتھ سے بنائی (اسی برینڈذ کی) اشیاء خریدنے سے قاصر ہے۔
80 کی دہائی میں جب افغانستان میں سوشلسٹ روس کو شکست دینے کیلئے امریکہ سامراج نے مجاہدین پیدا کئے تو انہوں نے مذہب اور ملاؤں کا استعمال کیا اوراس نظرئیے کو زبردستی مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی۔ مولویوں کو ڈالرز سے نواز کر سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں پر کافر ، ملحد اور لادین ہونے کے فتوے لگائے تا کہ مجاہدین انکی آپسی لڑائی کو اپنی مذہبی لڑائی سمجھ کر لڑیں۔ بعد ازاں وہی مجاہدین طالبان بنے اور نائن الیون کے بعد وہی درینہ دوست ایک دوسرے کے ازلی دشمن بن گئے۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور افغانستان کو ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے اور طالبان کو مضبوط کرنے کی وجہ سے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان آج تک پاکستان سے سخت ناراض ہے۔ امریکہ نے اس خطے کو نہ صرف مذہبی جنگ میں دھکیلا مگر اپنا فرسودہ معاشی نظام لاگو کر کے اسے معاشی طور پر بھی تباہ و برباد کر دیا۔
کیمونسٹ یا سوشلسٹ مذہب کے ہر گز خلاف نہیں مگر وہ مذہب کے سیاسی استعمال کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اس لئے ریاستی امور میں اس کی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے ۔ بہر حال موجودہ معاشی نظام بھی ایک سیکولر نظام ہے تو سوال یہ ہے کہ اگرایک انسان دشمن اور ناکارہ سرمایہ دارانہ (سیکولر نظامِ معیشت) چلایا جاسکتا تو ایک انسان دوست اور مزدور دوست (سیکولر) سوشلسٹ نظام کیونکر حرفِ تنقید بنایا جاتا یے؟
پاکستان میں اس وقت سرمایہ دارانہ معاشی نظام اپنی پوری آب و تاب سے رائج ہے۔ جس کی بنیاد سرمایہ داروں کو تحفظ پہنچانا اور غرباء پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ کرنا ہے۔ ورلڈ بنک ، آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی ترقی کا پیمانہ سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے سے مشروط ہے جبکہ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ انکے معنوں میں ہی شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو جب بھی قرضہ دیتا ہے تو ساتھ شرائط لاگو کرتا ہے کہ یہ پیسہ کسی بھی عوامی فلاحی منصوبے پرخرچ نہیں ہوگا اور ان شرائط میں سب سے ظالم شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ بجلی، گیس اور اشیائے خردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے وگرنہ آئی ایم ایف قرضے کی قسط نہیں دے گا۔ پاکستان میں حالیہ مہنگائی کی لہر آئی ایم ایف کی شرائط کی ہی مرہون منت ہے جسے کوئی بھی حکومتی اہلکار میڈیا پر نہیں لاتا اسکی وجہ شاید یہی ہے کہ حکمران اس نظام کے ہاتھوں بے بس ہیں مگر کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔
حکومت کے پہلے سال میں ہی اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ لگانے والی امیر المومنین کی حکومت نے آئی ایم ایف کے آگے گٹنے ٹیک دئیے اور عالمی اداروں کے کہنے پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے تنخواہ دار ملازمین کو پاکستان کا وزیر خزانہ اور سٹیٹ بنک کا گورنر لگا دیا۔ نیو لبرل معیشیت کے ان دونوں کارندوں نے آتے ہی معشیت کو آئی ایم ایف کے تابع کیا، امیروں اور مافیاز کو ٹیکس چھوٹ دی گئیں جبکہ آئی ایم ایف کے حکم پر مہنگائی میں اضافہ کیا، عوام کو دی گئی سبسیڈیز ختم کیں، نجکاری کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کیا اور مہنگائی میں اضافہ کرنے کیلئے تمام شعبوں میں پرائیویٹ مافیہ کو کھلی چھوٹ دے دی۔ مگر جب بھی عوام نے ان سے پوچھا کہ ہمارے لئے کیا کِیا تو انہیں خسارے کا لولی پاپ دیا گیا جو عوام سے ہی ٹیکسوں کی بھر مار کی صورت پورا کیا جارہا ہے۔
ایک مشہور معشیت دان نیورل روبینی نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت ان دو لائنوں میں بیان کی ہے کہ
’ہم غیر ضروری طور پر ایک ایسے نظام کو جاری رکھے ہوئے ہیں جہاں منافع نجی ملکیت سمجھا جاتا ہے جبکہ خسارہ اجتماعی ملکیت سمجھ کر پورا کیا جاتا ہے‘
جدید سرمایہ دارانہ نظام مذہبی نقطہ نظر سے بھی خالصتاً اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ سٹیٹ بنک سے لیکر تمام چھوٹے بڑے بنک بھی نظامِ سود پہ چلتے ہیں۔ بلا سود بنکاری نظام کے نام پہ سود کے لفظ کو منافع کہہ کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو قرضے دیکر دس سے پندرہ فیصد تک سود وصول کیا جاتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا یہ سودی نظام، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنی تمام رعنائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اسی لئے سوشلسٹ نظام معشیت اسلامی معاشی نظام کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ کی اساس جو کہ سود ہے دونوں نظاموں کی نظر میں انسان دشمن ہیں۔
اس وقت معاشرے میں پائی جانے والی امیر و غریب کی بڑھتی ہوئی نا ہمواری کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے وہ یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے امیروں پر ٹیکس کو مزید بڑھایا جائے اور ان سے حاصل ہونے والا سرمایہ غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کرنے والے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کیخلاف کاروائی کی جائے۔ ہر فیکٹری کو مزدوروں کی بنیادی تنخواہ کم از کم 40000 مقرر کی جائے تاکہ وہ مستحق ایک بہتر زندگی گزار سکیں ۔ تمام فیکٹریوں کے مالکان اپنا بنک بیلنس بھرنے اور غیر ضروری آسائشوں کی بجائے قانونی اور جائز منافع کما کر باقی ان مزدوروں میں تقسیم کریں جن کی محنت سے انکی فیکٹری یا کارخانے چل رہے ہے۔ بین الاقوامی سطع پر بھی سوشلسٹ ہی ہیں جو غریب ممالک کا استحصال کر کے انہیں دیئے گئے قرضوں کی ادائیگی معاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی لئے سوشلسٹ نظام سخت شرائط پر دئیے گئے قرضوں اور ان کی مد میں رکھے گئے سود کی بھر پور مخالفت کرتا ہے۔
یقیناً سوشلسٹ یا کیمونسٹ نظام معیشت مکمل طور پر اس وقت دنیا میں کہیں رائج نہیں ہے مگر یہ انسان دوست معاشی نظام اس وقت پوری دنیا کی ضرورت ہے اور حالیہ بحران کے بعد ایک دفعہ پھر ایک بہترین متبادل بن کر سامنے ابھرا ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی کا نظام (جس کی بنیاد ہی قیمتیں طے کرنا مارکیٹ پر منحصر ہے) کے باعث مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ ہوا ہے جہاں مافیہ نے چینی، آٹا اور ادویات کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ کر دیا ہے مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ادھر حکومت آئی ایم ایف کی ہتھکڑیوں کے باعث بے بس نظر آتی ہے۔ جبکہ غریبوں سے بنیادی انسانی ضروریات چھینی جارہی ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے مڈل کلاس کو نچلے طبقے میں لا کھڑا کیا ہے جبکہ غریب مزید پس کر پاتال لوک بن گئے ہیں۔
کرونا وائرس نے نیو لبرل اکانومی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کا بھیانک چہرہ بے نقاب کر دیا ہے جہاں غریب مزدور کو کرونا سے مرنے کا ڈر نہیں بلکہ بھوک سے مر جانے کا ڈر لاحق ہے۔ اس وائرس نے بین الاقوامی یکجہتی کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے جس کی رو سے سرمایہ دارانہ نظام ایک زہر قاتل بن کر سامنے آیا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف خود اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کیا ہے۔
سرمایہ دارانہ قوتیں روس کی شکست کے بعد سوچتی تھیں کہ یہ نظریہ مر چکا ہے اور کبھی اٹھ نہیں سکے گا، مگر جدلیات کی رو سے کوئی بھی نظریہ نہیں مرتا بلکہ اپنی بہتر ہیّت اور قوت سے دوبارہ اٹھتا ہے اور موجودہ فرسودہ نظام کے تمام تضادات کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک متبادل کے طور پہ زندہ رہتا ہے۔
دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے مادی جدلیات ہمیشہ پرانے اور فرسودہ نظریات سے ٹکراتی ہیں۔ شاید ان جدلیات کی منزل ایک ایسا بین الاقوامی سماج ہے جہاں سارے انسان کسی بھی مذہبی، معاشی اور معاشرتی تفریق کے بغیر برابر ہوں لہذاٰ اس استحصالی نظام کے مقابلے انسانیت کے اصولوں پہ مبنی ایک سوشلسٹ سماج ہی اس معاشرے کی حقیقی منزل ہے۔
حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔