لیاقت علی خان کو کراچی میں قتل کیا گیا تھا، گورنر عمران اسماعیل نے نئی کہانی چھوڑ دی

لیاقت علی خان کو کراچی میں قتل کیا گیا تھا، گورنر عمران اسماعیل نے نئی کہانی چھوڑ دی
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایک نئی کہانی چھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان ک کراچی میں قتل کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین حیران ہیں کہ موصوف تاریخ سے نابلد ہیں یا ان کی زبان لڑکھڑا گئی۔

کراچی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ لیاقت علی خان فرزند کراچی تھے، جنھیں آج ہی کے دن کراچی میں شہید کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ خان لیاقت علی خان، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی ہونے کے ناطے ہمیشہ ان کے افکار کو آگے لے کر چلے۔

https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1449320215549038596?s=20

یاد رہے کہ 16 اکتوبر 1951ء کے روز پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

اس واقعے کو 70 سال گزر چکے ہیں مگر یہ طے نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی تاریخ کا رُخ بدلنے والا یہ واقعہ کس بڑی سازش کا شاخسانہ تھا؟

اُس وقت کی حکومت نے لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا  جس میں صوبہ پنجاب کے مالیاتی کمشنر جناب اختر حسین بھی شامل تھے۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 17 اگست 1952ء کو شائع کی تھی۔

اس کمیشن کا دائرہ کار محض انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس افسران قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے۔

تاہم بیگم رعنا لیاقت علی خان اور عوام نے اسے مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے اس کمیشن کی رپورٹ پر ردعمل کے پیش نظر ایک اور رپورٹ تیار کروائی جس کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک معروف سراغ رساں سی ڈبلیو یورین کی خدمات حاصل کی گئیں۔

بی بی سی کے مطابق سی ڈبلیو یورین نے اس خدمت کے عوض 10 ہزار برطانوی پاؤنڈ بطور معاوضہ حاصل کیے اور 28 نومبر 1954 سے 16 جون 1955 تک قتل کی تفتیش کرتے رہے۔ 25 جون 1955 کو ان کی رپورٹ اشاعت کے لیے جاری کی گئی۔

اُن کی تفتیش کا حاصل یہ تھا کہ لیاقت علی خان کا قتل کسی سازش کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ ایک قاتل کا ذاتی فعل تھا۔