انسرجنسی کے دوران رپورٹنگ صحافی کیلئے پُلِ صراط پر چلنا

انسرجنسی کے دوران رپورٹنگ صحافی کیلئے پُلِ صراط پر چلنا
انسرجنسی کے دوران رپورٹنگ کرتے وقت صحافی پُلِ صراط پر چل رہا ہوتا ہے۔ صحافی جس ذرائع سے خبر کی تصدیق کرائے تو اُس پر کسی ایک کی حمایت یا ہمدردی کا الزام لگنا عام سے بات ہے۔ ایسی صورت حال میں صحافی خود کو کیسے محفوظ کر سکتا ہے؟

ایک خبر آتی ہے جہاں یہ حقائق دکھائے جا رہے ہوتے ہیں کہ کسی علاقے میں حملہ ہوا اور کتنے لوگ اس میں ہلاک ہوئے۔ یہاں خبر کی حقیقت تو بتانا بہت دور کی بات، الفاظ کے چناؤ کیلئے بھی ایک صحافی کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری انسرجنسی کے دوران جہاں ریاست کی جانب سے علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی تشہیر اور کوریج کو سختی سے پابندی ہے، وہیں مسلح تنظیموں کی جانب سے بھی کوریج نہ دینے پر صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں علاقائی سطح پر فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی محتاط رہتے ہیں۔ مسلح تنظیموں کی خبر نہ چلانے پر سنگین نوعیت کے نتائج بھگتنے کی دھمکیاں اور خبر چلانے کی صورت میں یہ ڈر کہ کہیں خود خبر نہ بن جائیں۔

اس سلسلے میں جب ہم نے تربت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی طارق مسعود سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں صحافیوں کے قلم نکلنے والی خبروں سے بہت سوں کو پریشانیاں ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک انسرجنسی کے دوران رپورٹرز کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ انتہائی اہم ہے۔ مجھے بطور صحافی کئی بار فون کالز آ چکی ہیں۔ ہمارا بطور صحافی کسی کی جانب جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ میزان تھوڑا اوپر نیچے ہو تو اوپر والے ناراض ہوتے ہیں، ہمیں تو صراط مستقیم پر چلنا پڑتا ہے۔

علاقے میں ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں مسلح تنظیموں کی جانب سے اکثر ایسے مسئلے پیش آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی خبریں ہم ہیڈ آفس تک نہیں پہنچاتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے حدود میں جو بھی واقعہ پیش آتا ہے، ہم شام تک اسے بھیج دیتے ہیں۔ اب اخبار کی اپنی پالسیاں ہوتی ہیں۔ بطور رپورٹر ہم ان کی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ ہمارا کام خبر بھیج دینا ہوتا ہے، وہ ہم کرتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح اگر شاذو نادر مسلح تنظیموں کی کوئی خبر ہمارے بیورو سے لگ جائے تو انتطامیہ کی جانب سے متعدد بار جواب طلبی ہوگی۔ انٹلی جنس اداروں کی جانب سے مسلح تنظیمموں کی خبر نہ چلانے کی تنبیہ کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے ہم بلوچستان کے معتبر نیوز پیپر (روزنامہ انتخاب حب) کے ایڈیٹر اور پبلشر، سینئر صحافی نرگس بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی علاقے میں جہاں انسرجنسی ہو وہاں خطرناک صورتحال ایک صحافی کے لیے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کہ دھماکے کی خبر کی حقیقت بتانا بہت دور کی بات، الفاظ کے چناؤ کیلئے بھی ایک صحافی کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے اخبارات میں دیکھا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان سے بھی صحافیوں کو یہ دھمکی دی کہ ان کے متعلق خبر بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان کیلئے عسکریت پسند یا دہشتگرد جیسے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں بلکہ ان کا نام صرف اور صرف افغان طالبان استعمال ہو۔

اس بارے میں تربت سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی اسد اللہ بلوچ نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں انسرجنسی کے دوران رپورٹنگ کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط اور کافی حد تک متحرک ہونا ضروری ہے۔ انسرجنسی کے ماحول میں ایک صحافی کو خبر کی تصدیق کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متحارب گروہ یا انتظامیہ یا متعلقہ کسی سرکاری محکمے سے خبر کی تصدیق مشکل سے کی جاتی ہے اور اس میں بھی بڑی حد تک احتیاط برتنا لازمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافی جہاں اور جس ذرائع سے خبر کی تصدیق کرائے گا تو اس پر کسی ایک کی حمایت یا ہمدردی کا الزام لگنا عام بات ہے، اس میں صحافی کی جان بھی خطرے میں آ سکتی ہے۔ انسرجنسی یا جنگی ماحول صحافت کے لیے بے حد مشکلات اور پر خطر ہوتا ہے، اس ماحول میں آپ کے ذرائع بھی خبر دیتے یا تصدیق کرتے وقت خوف کا شکار رہتے ہیں۔ چند سال قبل ہمارے ساتھی سینئر صحافی رزاق گل بلوچ کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔

 

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔