توہین مذہب کے مقدمے میں صحافی اسلم بلوچ کی گرفتاری اور رہائی کا واقعہ

توہین مذہب کے مقدمے میں صحافی اسلم بلوچ کی گرفتاری اور رہائی کا واقعہ
گذشتہ ماہ مارچ کی 20 تاریخ کو پولیس کی بھاری نفری ڈی ایس پی اور ویمن پولیس انسپکٹر مومل لغاری کی معیت میں میرپور خاص شہر کے محلے غریب آباد کے ایک گھر میں بغیر کسی وارنٹ گرفتاری یا وارنٹ تلاشی کے داخل ہوئی۔ گھر پر حاملہ خاتون شبانہ بلوچ، اس کی عمر رسیدہ ساس اور 4 بچیاں موجود تھیں۔ ان کے ساتھ شدید بدتمیزی کی گئی۔

پولیس نے گھر کے کمروں میں الماریوں میں سے سامان الٹ پلٹ کر نکال باہر پھینکا۔ گھر کے سامان کی توڑ پھوڑ کی، موبائل فون چھین لیا اور شبانہ بلوچ کو گھسیٹ کر لے گئی۔ شبانہ بلوچ صحافی اسلم بلوچ کی بھابھی ہیں۔ اسی دن صحافی اسلم بلوچ توہین مذہب کے الزامات کے تحت کٹی ایف آئی آر کا سن کر کئی گھنٹے قبل تھانے میں جا کر گرفتاری دے چکا تھا۔ صحافی اسلم بلوچ پر الزام تھا کہ اس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی تھی جس میں ہندو مذہب کے بھگوان ہنومان پر عمران خان کا چہرہ لگایا گیا تھا۔

میرپور خاص شہر اور شہر سے باہر سندھ سمیت ملک بھر میں خاص طور پر اور دنیا بھر میں عمومی طور پر بلوچ کمیونٹی میں جو بھی صحافی اسلم بلوچ کو جانتے تھے انہیں اس بات پر کہ اسلم بلوچ کی توہین مذہب کے الزام میں گرفتاری ہوئی ہے کہ اس نے مبینہ طور پر ہندوؤں کے بھگوان ہنومان کی توہین کی تھی، پر نا صرف انتہائی حیرت اور دکھ کا اظہار کیا بلکہ اسے ناقابل اعتبار بھی سمجھا گیا۔ اس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی وسیع پیمانے پر ردعمل میں دیکھنے میں آیا۔ اسلم بلوچ کی توہین مذہب کے الزام میں گرفتاری پر انتہائی حیرت اور دکھ اس لیے بھی ہوا کہ اسلم بلوچ نظریاتی طور پر ایک سیکولر اور وسیع المشرب شخص تھا جو ہر مذہب اور عقیدے کی تقریبات اور تہواروں میں شریک ہوتا تھا۔ 2 سال قبل اسلم بلوچ کی ہندو برادری کا تہوار ہولی منانے پر پریس کلب میرپور خاص کے کچھ مذہبی انتہا پسند صحافیوں اور شہریوں کے گروہ نے ان پر الزامات لگائے تھے کہ اسلم بلوچ نے ہولی کا رنگ مسلمانوں کے مقدس نام پر پھینکا ہے اور تھانے اور پریس کلب کا گھیراؤ کیا گیا تھا جو الزام بعد میں من گھڑت ثابت ہوا تھا۔

اسلم بلوچ کا حالیہ واقعے کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ ایک پرانی تصویر تھی جو کسی اور نے ان کے نام سے جعلی فیس بک اکاؤنٹس پر شیئر کی تھی۔ اسلم بلوچ نے تاہم فوراً اپنی طرف سے ویڈیو بنا کر اس پر معافی بھی مانگی تھی لیکن پولیس پر سندھ میں حکمران پارٹی کے ایم پی اے گیان چند، ایم پی اے پونجو مل اور مقامی رمیش لال مالھی کا دباؤ تھا کہ کسی بھی صورت میں اسلم بلوچ کو گرفتار کیا جائے۔

پولیس نے اسلم بلوچ کو فون کیا تو اسلم بلوچ نے جا کر اپنی گرفتاری پیش کر دی۔ پولیس نے توہین مذہب کے قوانین کے تحت سیکشن 195 میں سندھ کے محکمہ داخلہ کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر کاٹ کر مقدمہ درج کر لیا۔ سندھ میں اب یہ قانون ہے کہ توہین مذہب یا توہین برگزیدہ شخصیات کے الزامات میں ایف آئی آر سندھ کے محکمہ داخلہ کی طرف سے تحقیقات کے بغیر درج نہیں کی جا سکتی۔

پولیس صرف اسلم بلوچ کی گرفتاری پر نہیں رکی۔ اسلم بلوچ کی بھابھی شانہ بلوچ کے بقول پولیس بغیر کسی وارنٹ گرفتاری اسلم بلوچ کے بھائی کے گھر میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او غریب آباد امتیاز جونیجو اور ویمن پولیس انسپکٹر مومل لغاری کی قیادت میں گھسی۔ ڈی ایس پی بار بار کہہ رہا تھا کہ 'آئی جی لائن پر ہے'۔ پولیس نے گھر کے سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ پولیس نے گھر میں موجود ان کی 4 کمسن بیٹیوں کو ہراساں کیا۔

شبانہ بلوچ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ایک پولیس والے نے ان کی ایک کمسن بیٹی پر رائفل تان لی جس کی وجہ سے ان کی بیٹی ابھی تک بول نہیں پا رہی۔ الماری سے پولیس نے 50 ہزار نقدی بھی لوٹ کی۔ اس کی وجہ پوچھنے پر بھی پولیس نے ان کو خاموش رہنے کا کہا۔ گھر کے سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ ان کے کرایہ داروں کو بھی ہراساں کیا۔ جبکہ شبانہ بلوچ پولیس سے بار بار کہہ رہی تھی کہ نا ہی اسلم بلوچ ان کے گھر میں موجود ہے اور نا ہی یہ اسلم بلوچ کا گھر ہے۔ اسی ویڈیو بیان میں شبانہ بلوچ نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس انہیں گھسیٹ کر تھانے لے گئی جبکہ انہیں نہ دوپٹہ پہننے دیا گیا اور نہ ہی برقعہ اوڑھنے دیا گیا۔

'پولیس نے اس طرح کارروائی کی جیسے اس گھر میں اسامہ بن لادن چھپا تھا'، ماضی قریب تک پاکستان کے واحد نجی بلوچ نیوز چینل 'وش ٹی وی' کے نمائندے اسلم بلوچ نے ‘Dissent Today’ کو واٹس ایپ پر بات چیت کے دوران بتایا۔

ادھر میرپور خاص ہندو پنچائیت کمیٹی پر یہ بات آشکار ہونے پر کہ اسلم بلوچ کے خلاف بالکل بے بنیاد الزامات پر ایف آئی آر کٹوائی گئی ہے، پاکستان مائناریٹیز کمیٹی کے چیئرمین کرشن شرما، سابق ایم این اے کش چند پاروانی اور دیگر ہندو زعما کی مداخلت پر اسلم بلوچ پر لگے الزامات واپس لے لیے گئے۔ جبکہ کنزیومر افیئرز کورٹ اور جوڈیشل میجسٹریٹ نے اسلم بلوچ کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ جھوٹا قرار دے کر خارج کر دیا اور اسلم بلوچ بری قرار دیے گئے۔

اسلم بلوچ اگرچہ اب توہین مذہب کے مقدمے میں بری ہو چکے ہیں لیکن وہ اور ان کے اہل خانہ بھاوج، والدہ اور بھتیجیاں اب تک بہت خوفزدہ اور صدمے میں ہیں۔ اسلم بلوچ نے اس پر دکھ کا اظہار کیا کہ سب کچھ ان کے ساتھ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ دور حکومت میں ہوا ہے اور اس پارٹی کے اقلیتی رکن اور وزیر کی طرف سے ہوا ہے جبکہ انہوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھائی ہے اور ان کی حق تلفی کے وقت ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔

میرپور خاص کے اکثر بلوچ، اسلم بلوچ اور اس کے خاندان سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے پہلے دن سے اس پارٹی کے حمایتی اور ووٹر رہے ہیں۔ اسلم بلوچ نے بتایا کہ 'جب میں بیروزگار بھی تھا تو آصف زرادری جب جیل میں تھے تو ان کی کراچی کی عدالتوں میں ہر پیشی پر میرپور خاص سے بذریعہ ٹرین بغیر ٹکٹ سفر کر کے کراچی پہنچتا تھا کیونکہ میں واقعی آصف علی زرداری کو نیلسن منڈیلا سمجھتا تھا۔ ایک دفعہ میں ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرتے پکڑا بھی گیا تھا'۔

اسلم بلوچ قدرے خوش نصیب نکلا لیکن اور کئی جن میں گھوٹکی کے پروفیسر نوتن لال اور ملتان کے پروفیسر جنید حفیظ شامل ہیں، اتنے خوش نصیب نہیں ہیں جو توہین مذہب کے الزام میں گزشتہ چار سال سے عمر قید کاٹ رہے ہیں اور کئی دوسرے سالوں سے سزائے موت کے منتظر ہیں۔