بہاولپور میں احمدیہ کمیونٹی کے رہنما کے قاتل کی گرفتاری کا دعویٰ، پولیس اور سی ٹی ڈی کا ملزموں کی گرفتاری سے متعلق انکار کیوں؟

مہتمم مدرسہ کے مطابق دونوں طالب علم اپنے گھروں سے گرفتار ہوئے ہیں مگر یہ علم نہیں وہ کب گرفتار ہوئے۔ ’’سی ٹی ڈی حکام نے مجھ سے بھی تفتیش کی جنہیں بتایا کہ مقدمے میں ملوث ملزم ان کے مدرسے کے طالب علم نہیں ہیں‘‘۔

Ahmadi gunned down

جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کے علاقے تھانہ صدر حاصل پور کی حدود میں 4 مارچ کو صبح ساڑھے 6 بجے 2 نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے سڑک پر چلتے ہوئے احمدیہ کمیونٹی کے صدر طاہر اقبال کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جس کا مقدمہ مقتول کے کزن نعیم احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں الزام عائد کیا گیا کہ نامعلوم ملزموں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر مدعی کے کزن کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔

احمدیہ کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ ملزم زین جو مقامی چک کی مسجد میں امامت کرواتا ہے اور عدیل کی موٹر سائیکل مرمت کی دکان ہے۔ دونوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور تفتیش سی ٹی ڈی کے حوالے کر دی گئی ہے۔ احمدیہ کمیونٹی کے مطابق دونوں ملزموں نے نے طاہر اقبال کو قتل کرنے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔

احمدیہ کمیونٹی کے رہنما عامر محمود کہتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے مذہبی منافرت کی بنیاد پر حاصل پور میں احمد کمیونٹی کے صدر طاہر اقبال کو قتل کیا۔ مقدمے میں ملوث ملزم مقامی مدرسہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ واضح ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی گراس روٹ لیول تک سرائیت کر چکی ہے، گائوں کے لوگ برادری کی بنیاد پرایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اب گائوں میں بھی لوگ مذہب کی بنیاد پر جانیں لے رہے ہیں جو کہ باعثِ تشویش ہے۔

تھانہ حاصل پور کے انچارج انویسٹیگیشن سب انسپکٹر زاہد اقبال کہتے ہیں کہ مقدمے کے ملزموں کا سراغ مل گیا ہے اور جلد گرفتاری عمل میں آ جائے گی، ملزموں کے جامعہ اسلامیہ الاحیا العلوم سے پستول حاصل کرنے اور ملزموں کا تعلق لشکر جھنگوی سے ہونے جیسی ساری معلومات زبانی کلامی ہیں اور تفتیشی افسر نے کیس کی تحقیقات کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کو بھجوائے جانے کے سوال پر کہا کہ ایسا ان کے علم میں بالکل بھی نہیں ہے۔

کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان علی نواز نے بھی مقدمے کی تحقیقات سی ٹی ڈی کو سونپے جانے کی تردید کی ہے۔

جامعہ اسلامیہ الاحیاء العلوم کے مہتم محمد عدنان کہتے ہیں کہ مقدمے میں گرفتار کیے گئے ملزم زین اور عدیل مدرسے کے طالب علم تھے مگر مدرسے میں چھٹیاں ہونے کے بعد وہ دوبارہ نہیں آئے تھے اور نہ ہی اب اس مدرسے کے طالب علم ہیں۔ دونوں طالب علم اپنے گھروں سے گرفتار ہوئے ہیں مگر یہ علم نہیں وہ کب گرفتار ہوئے۔ ’’سی ٹی ڈی حکام نے مجھ سے بھی تفتیش کی جنہیں بتایا کہ مقدمے میں ملوث ملزم ان کے مدرسے کے طالب علم نہیں ہیں‘‘۔

احمدیہ کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور اس کے تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔ جو لوگ نفرت کا کاروبار کر رہے ہیں خاص طور پر احمدیوں کے بائیکاٹ اور ان کے واجب القتل ہونے کی بات کرتے ہیں ان کو سختی سے کنٹرول کرنے اور ان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ پولیس نے دو ملزموں کو بڑے کم وقت میں گرفتار کر کے سی ٹی ڈی کے حوالے کیا ہے، پولیس کی کارکردگی اطمینان بخش ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعے کی ٹھوس تحقیقات کی جائیں اور اس افسوسناک واقعے کے اصل محرکات کو سامنے لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمے کا چالان قانون کے تقاضوں کو مکمل کر کے جلد عدالت میں پیش کر کے پراسکیوشن کا عمل مکمل کیا جائے تا کہ ملزموں کو سزائیں مل سکیں۔

یہاں عجیب و غریب صورتحال یہ بھی ہے کہ پولیس کے مطابق کوئی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آئی لیکن ملزمان کے سابق مدرسے اور جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔