لاہور ثقافت، تاریخ اور روشنیوں سے بھرا شہر ہے جس کی تاریخ 2000 سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا ایک بہت بڑا حصہ لاہور سے منسلک ہے۔ لاہور کو زندہ دلوں کا شہر کہا جاتا ہے، لیکن ’’ رنگ باز‘‘ کا ’’لقب‘‘ بھی لاہوریوں کے لیے سننے میں آتاہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس کی ایک دلچسپ تاریخ ہے جو یہاں کے رہنے والوں کے پیشے کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن بعد ازاں اس ’’لقب‘‘ کو طنز کے طور پر لیا جانے لگا۔ لاہور پنجاب کی ثقافت کا گڑھ ہے جہاں کھانا، پینا، اوڑھنا، بچھونا سب منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں کی لڈو پیٹھیاں، دہی بھلے،گول گپے، فالودہ،قلفی اور کھویا۔ یہاں کا بھنگڑا اور لاچا، یہاں کی گڈی،پتنگیں ،ڈور، چرخیاں، شور شرابا اور بو کاٹا۔
یہاں کا گرم موسم اور ٹھنڈی سڑک۔یہاں کی گلیاں چوراہے۔ اک اک سمت ثقافت سے بھرپور۔ اس کی بولی سے متعلق راقم کے والد کہا کرتے ہیں کہ لاہوریوں کا سب سے مشہور لفظ ’’پلوانڑ‘‘ (پہلوان) ہے جیسے پنڈی کے لوگ مسیر (ماسی کا بیٹا) کر کے مخاطب کرتے ہیں ویسے ہی لاہوری پہلوان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جیسے ’’پلوانڑ اسی کی کھٹیا اے یار‘‘ (پہلوان ہم نے کیا کمایا ہے)۔ زبانیں چونکہ ثقافت کی ترجمان ہوتی ہیں اور کوئی انسان کیا سوچتا ہے یہ اس کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ سے ہی معلوم ہوتا ہے۔ خیر ہمارے ایک عزیز نے ایک واقعہ سنایا کہ انہوں نے اردو زبان پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ لفظ ’’ڑ‘‘ سے اردو کا کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا، لیکن جب انہوں نے لاہور کی ایک لڑکی کو ’’ڑیلوے ٹیشن‘‘ کہتے سنا تو یہ ان کی تحقیق کے مرگ کا دن تھا۔
ایسے ہی سیالکوٹ کے لوگ بھی اپنے لہجے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔’’ لاہور لاہور ہے ‘‘، اپنے اندر ایک تاثیر رکھتا ہے اور دنیا بھر سے آنے والوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ تو بات رنگ بازی سے شروع ہوئی تھی۔ یہ شہنشاہ اکبر اور شاہ جہاں کا دور حکومت تھا اور اس دور میں لاہور نیل کی دنیا کا سب سے بڑا مرکز تھا اور شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی باقاعدہ منڈی قائم کی۔ یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی کہلائی جاتی ہے۔ اس دور میں لاہور کے مضافات میں میلوں تک نیل کے پودے تھے جہاں لوگ ان پودوں کا ست نکالتے تھے، جس کے بعد ست کو بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکایا جاتا تھا۔ ست پکنے کے بعد اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں جس کے بعد یہ ڈلیاں ٹوکریوں اور بوریوں میں بند ہو کر منڈی پہنچتی تھیں جہاں یہ ڈلیاں تاجروں کے ہاتھوں بکتی تھیں۔
اس کے بعد گڈوں کے ذریعے یہ ڈلیاں ممبئی اور کولکتہ پہنچتی تھیں۔ وہاں سے انھیں فرانسیسی اور اطالوی تاجر خریدکر جہازوں میں بھرتے تھے۔ یہ نیل بعد ازاں اٹلی کے ساحلی شہرجینوا پہنچ جاتا تھا، جو فرانسیسی شہر نیم (Nîmes) کے قریب تھا۔ نیم شہر ڈی نیم کہلاتا ہے جہاں ہزاروں کھڈیاں تھیں جن پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا۔ یہ کپڑا سرج کہلاتا تھا جو بن کر جینوا پہنچتا تھا۔ وہ لوگ اس کپڑے پر لاہور کا نیل چڑھاتے تھے جس سے کپڑا نیلا ہو جاتا تھا۔ وہ نیلا کپڑا اگلے مرحلے کے لیے درزیوں کے پاس پہنچتا تھا۔ درزی اس سے مزدوروں، مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے تھے۔ وہ پتلونیں بعد ازاں جینوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جینز پتلونیں مشہور ہو گئیں تو ڈی نیم شہر کے تاجروں نے اپنے کپڑے کو ڈی نیم پکارنا شروع کر دیا۔
جینز اور ڈی نیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہوئے اور یہ ڈینم جینز بن گئے۔ اس کے تین عناصر تھے جس سے وہ مکمل ہوتی تھی۔ پہلا ڈی نیم کا کپڑا، دوسرا لاہور کا نیل اور تیسرا جینوا کے درزی۔ مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تویہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شاید جینز نہ بنتی اور اگر بنتی بھی تو کم از کم یہ نیلی نہ ہوتی۔ جینز کا نیلا پن بہرحال لاہور کی مہربانی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ولندیزیوں نیل کے لئے ہندوستان آتے تھے جب کہ برطانوی افیون کے لئے، اور پھر پورا ہندوستان ہتھیا لیا۔
لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں، ہم ابھی اس دور کی بات کر رہے ہیں جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا اور یہ لاہوری اور انڈیگو کہلاتا تھا۔ لیکن پھر لاہوری نیل کو نظر لگ گئی۔ مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا اور یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لئے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں، اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور یوں لاہور میں نیل کی صنعت زوال پذیر ہو گئی۔ اس تاریخ کو بھول کر ’’رنگ باز‘‘ کو طنز میں تبدیل کر دیا گیا۔ لاہوریوں کو یہ ’’لقب‘‘ یا ’’خطاب‘‘ تو ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا۔
ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی اور فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا ہے مثلاً کبوتر پالنے والوں اور اڑانے والوں کو کبوتر باز۔ اسی مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہو گئے۔ چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو رنگ بازکہنے لگے۔ اس زمانے میں چونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا۔ اور یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ وتابندہ ہے۔