طالبان کی کسی تنظیم نے کبھی رحمان ملک کی سر کی قیمت مقرر نہیں کی تھی، احسان اللہ احسان

طالبان کی کسی تنظیم نے کبھی رحمان ملک کی سر کی قیمت مقرر نہیں کی تھی، احسان اللہ احسان
اسلام آباد: کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے نیا دور میڈیا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی طالبان کی کسی بھی تنظیم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک کی سر کی قیمت کبھی مقرر نہیں کی تھی اور نہ اس حوالے سے کبھی کوئی بات ہوئی بلکہ وہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں خود کو اہمیت دینے کے لئے ایسے شوشے چھوڑتے تھے تاکہ ملکی اور بین الاقوامی نظروں میں وہ اہمیت کے حامل ہو جائیں۔

احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ شوریٰ کے تمام اجلاسوں میں وہ موجود رہتے تھے اور جب بھی کبھی کوئی اس حوالے سے بات کرتا تھا تو میں منع کر دیتا تھا اور جواب دیتا تھا کہ غیر سنجیدہ لوگوں پر وقت ضائع نہ کریں اور صرف کام کی باتیں کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں جب سے تحریک طالبان اور جماعت الاحرار کا ترجمان تھا تو کبھی رحمان ملک صاحب کو یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو دھمکیاں نہیں دیں کیونکہ ہم ان کے بیانات کو غیر سنجیدہ سمجھتے تھے‘۔



واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد رحمان ملک نے سوات کے دورے کے موقع پر تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی سر کی قیمت 100 ملین (10 کروڑ) روپے مقرر کی تھی۔

اس حوالے سے جب اسلام آباد کے سینیئر صحافی اعزاز سید سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کو زیادہ علم نہیں کہ ان کی سر کی قیمت واقعی میں مقرر ہوئی تھی یا نہیں ’مگر میرے علم میں یہ ضرور ہے کہ ایک بار ان کے گھر پر کفن بھیجا گیا تھا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ یہ کفن واقعی میں کسی شدت پسند تنظیم نے بھیجا تھا یا نہیں‘۔

احسان اللہ احسان نے مزید کہا کہ وہ آج کل ایک کتاب لکھ رہے ہیں، اس لئے میڈیا میں زیادہ معلومات سامنے نہیں لے کر آ رہے اور کتاب میں بہت ساری معلومات شامل ہیں۔



یہ بھی پڑھیے: مفرور دہشتگرد احسان اللہ احسان پر مقدمہ چلانے میں ناکامی پر ریاستی اداروں سے جواب طلب







جماعت الاحرار کے سابق ترجمان نے 2017 میں افواجِ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور انہوں نے حال ہی میں الجزیرہ سے منسلک پاکستانی صحافی طحیٰ صدیقی کے ساتھ ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک معاہدے کے تحت سرنڈر کیا تھا جس میں سب سے پہلا شق یہ شامل تھی کہ ان پر کسی بھی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جائے گا اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مہینے میں ان کو باقاعدہ خرچے کے طور پر رقم ادا کی جائے گی اور ضلع مہمند میں واقع ان کے گھر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، مگر ان وعدوں پر عمل نہیں ہوا۔

حال ہی میں احسان اللہ احسان نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی تھی کہ حکومت نے ان کے خاندان کے لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور ان کو آزاد کیا جائے۔

احسان اللہ احسان نے مزید کہا کہ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے آپریشن سے پہلے طالبان وہ علاقہ چھوڑ چکے تھے اور یہ ایک باقاعدہ جنگی حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ طالبان کو کم سے کم نقصان ہو اور بوقت ضرورت وہ دوبارہ اپنی کارروائیاں شروع کریں۔ طالبان کے کئی دھڑے دوبارہ سے سابقہ فاٹا میں متحرک ہو رہے ہیں اور ابھی تک وہ بھر پور کارروائیوں کی طاقت رکھتے ہیں۔