فیصل آباد میں توہین رسالت، مذہب اور قرآن کے مقدمہ میں گرفتار خاتون کے شوہر کی ضمانت منظوری کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ڈاکٹر احمد نواز کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروا کر رہا کرنے کا حکم سنا دیا۔
نشاط آباد تھانہ فیصل آباد میں 14 اپریل 2023 کو درخواست گزار ڈاکٹر احمد نواز اور ان کی اہلیہ حنا انجم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اے، 295 بی، 295 سی، 298 اے اور سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کی تحقیقات ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل فیصل آباد نے کی ہیں۔
مقدمہ میں درخواست گزار ملزم پر الزام تھا کہ اس نے اپنی اہلیہ حنا انجم اور نبوت کی دعویدار نسبتی بہن ثناء اللہ عرف قیامت کے پیغمبر اسلامﷺ، مذہب اور قرآن سے متعلق توہین آمیز بیان کی مکمل حمایت کر کے بے حرمتی کی۔ جبکہ مرکزی ملزمہ حنا انجم نے توہین آمیز بیان کی سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کی۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ ملزم احمد نواز مقدمہ میں نامزد ہے اور یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ توہین آمیز بیان ملزم کی اہلیہ حنا انجم نے دیا. درخواست گزار پر یہی الزام ہے کہ اس نے اپنی اہلیہ اور نسبتی بہن کے بیان کی گواہوں کی موجودگی میں تائید کی تھی۔ ملزموں کے خلاف ثبوتوں اور گواہوں کی اہمیت کا تعین ٹرائل کورٹ کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ درخواست گزار ملزم ڈاکٹر احمد نواز نے کوئی بھی توہین آمیز مواد سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ملزم کے نفسیاتی معائنے کی ریکارڈ پر موجود رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقوعہ کے روز تک ملزم اپنی اہلیہ کے مذہبی اعتقاد سے بالکل بھی آگاہ نہیں تھا۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ ملزم ڈاکٹر احمد نواز نے وقوعہ کے بعد اپنی اہلیہ حنا انجم کو طلاق دے دی تھی اور عدالت میں ملزم کی طرف سے ختم نبوت پر ایمان کا بیان حلفی بھی پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ حقائق کی بنیاد پر ملزم کے خلاف کیس مزید تحقیقات کا متقاضی ہے جس کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔ تحقیقاتی ادارے کو اس وقت مزید تفتیش کیلئے ملزم کی گرفتاری مطلوب نہیں اور درخواست گزار کو غیر معینہ مدت تک جیل میں قید رکھ کر کوئی مفید مقصد پورا نہیں ہو گا۔ نتیجتاً ملزم ڈاکٹر احمد نواز کو 1 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
1860 میں برطانوی راج کے دور میں پہلی بار برصغیر میں توہین مذہب کا قانون رائج کیا گیا اور 1927 میں اس میں اضافہ کیا گیا۔ پاکستان میں 1980 کی دہائی کے دوران جنرل ضیاء الحق کے دور میں توہین مذہب کے قانون کو اسلام سے مطابقت دینے اور 1973 کے آئین میں احمدیہ کمیونٹی جسے غیر مسلم قرار دیا گیا اسے ملک کی مسلمان اکثریت سے الگ شںاخت کرنے کی غرض سے اس میں متعدد دفعات کا اضافہ کیا گیا۔
برطانوی راج کے دوران بنائے گئے توہین مذہب کے قوانین کے مطابق مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، جان بوجھ کر عبادت گاہ یا عبادت سے منسلک کسی چیز کی توہین کرنا، کسی کے قبرستان میں بغیر اجازت داخل ہونا، مذہبی اجتماع میں رکاوٹ ڈالنے کو جرم قرار دیا گیا تھا۔