Get Alerts

لاہور کے رہائشی فرحان آصف کا حالیہ برطانوی فسادات سے کیا تعلق ہے؟

فرحان آصف نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہماری جانب سے غلط خبر چلائی گئی جو نہیں چلنی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کی تمام تر ذمہ داری ایک چھوٹی سی نیوز ویب سائیٹ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

لاہور کے رہائشی فرحان آصف کا حالیہ برطانوی فسادات سے کیا تعلق ہے؟

حالیہ دنوں کے دوران برطانیہ میں ہونے والے مظاہروں کو پرتشدد بنانے میں فیک نیوز نے مرکزی کردار ادا کیا۔ فیک نیوز پھیلانے والے ایک نیوز پلیٹ فارم کے ڈانڈے پاکستان کے شہر لاہور سے بھی ملتے ہیں۔ فرحان آصف نامی پاکستانی شہری بھی اس گروپ کا حصہ ہے جس نے ساؤتھ پورٹ حملے سے متعلق فیک نیوز شائع کی اور برطانیہ میں اشتعال پھیلایا۔

برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ کے ایک ڈانس سکول میں گذشتہ ماہ ایک شخص نے حملہ کر کے 3 بچیوں کو قتل کر دیا تھا اور واقعے میں 8 بچیوں اور 2 بالغ افراد سمیت 10 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ حملہ آور اگرچہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تاہم بعد میں پولیس نے اسے آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کی عمر 17 سال ہے اور کم سنی کے باعث اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔ البتہ برطانیہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حملہ آور مسلمان تھا۔ اس واقعہ کے بعد برطانیہ بھر میں پناہ گزینوں کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں لوگ زخمی ہو گئے تھے۔

ساؤتھ پورٹ حملے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں سے شہہ ملی اور فیک نیوز پھیلانے میں ایک نیوز ویب سائیٹ چینل تھری ناؤ کا بھی ہاتھ تھا۔ تحقیقات کے دوران اس نیوز ویب سائیٹ کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو تلاش کیا گیا جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔ ان میں سے ایک فرحان آصف بھی ہیں جو اس نیوز ویب سائیٹ کے لیے کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔

ساؤتھ پورٹ میں ڈانس سکول پر ہونے والے حملے میں تین برطانوی بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد مختلف نیوز ویب سائٹس پر حملہ آور سے متعلق غلط خبریں چلائی گئیں۔ چینل تھری ناؤ پر بھی ایسی ہی ایک خبر چلائی گئی جس میں بتایا گیا کہ حملہ آور پناہ گزین ہے جس نے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔ اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ حملہ آور کچھ عرصہ قبل کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچا تھا۔ بعض دیگر پلیٹ فارمز پر بھی لکھا گیا کہ حملہ آور مسلمان ہے جس نے برطانوی بچیوں کو قتل کیا ہے۔

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس قسم کی فیک نیوز کے بعد برطانیہ بھر میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے وابستہ تنظیمیں اور عام لوگ جو پناہ گزین مخالف سوچ رکھتے ہیں، سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کر گئے اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئی مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ مظاہرین نے مساجد پر حملے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جس سے برطانیہ میں مقیم مسلمان کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہو گئی۔

اگرچہ برطانوی حکام اور پولیس اہلکاروں نے بارہا عوام سے اپیل کی کہ وہ حملہ آور کی شناخت سے متعلق غلط خبروں پر دھیان نہ دیں، تفتیش کی جا رہی ہے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے گی تاہم عوام کا غصہ کم نہ ہو سکا۔ جھڑپوں کے دوران پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا اور تحقیقات کے بعد کئی مظاہرین کو سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔

یہ حیران کن ہے کہ برطانیہ میں ہونے والے فسادات میں کسی ایسے شخص کا بھی ہاتھ ہے جو پاکستان کے شہر لاہور میں بیٹھ کر چینل تھری ناؤ کے لیے کام کرتا ہے۔ فرحان آصف نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ہماری جانب سے غلط خبر چلائی گئی جو نہیں چلنی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کی تمام تر ذمہ داری ایک چھوٹی سی نیوز ویب سائیٹ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ فرحان آصف نے یہ بھی بتایا کہ جو لوگ یہ خبر بنانے اور چلانے میں ملوث تھے ادارے نے انہیں نوکری سے نکال دیا ہے۔

یہ قابل ذکر ہے کہ چینل تھری ناؤ نے بعد میں غلط خبر چلانے پر معافی مانگ لی تھی۔

فیک نیوز کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل دہشت گردی، بھارت میں مسلمان مخالف جذبات، امریکہ میں ٹرمپ پر حملے سے متعلق غلط خبریں اور برطانیہ میں پناہ گزین مخالف جذبات کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا باقاعدہ ہتھیار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جب سے ویوز کی بنیاد پر کمائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے فیک نیوز کا بازار خوب گرم ہو گیا ہے۔ ادارے اپنی خبر پر زیادہ سے زیادہ ویوز اور شیئرز حاصل کرنے کے لیے اسے زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بناتے ہیں اور اسی سنسنی خیزی میں فیک نیوز بھی ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اداروں سے بعض اوقات غلطی سے فیک نیوز نشر ہو جاتی ہے تاہم اکثر دانستہ طور پر ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کمائی کی جا سکے۔ برطانوی حکام خصوصاً اور پوری دنیا کے لوگ عموماً سوشل میڈیا کمپنیوں سے فیک نیوز کا سدباب کرنے کا کوئی مؤثر میکنزم بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔