Get Alerts

مذہبی تشدد کے سال بہ سال بڑھتے واقعات کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟

اعداد وشمار کے مطابق مذہبی منافرت نے پچھلے چار سالوں میں ناصرف 389 افراد کو موت کی نیند سلایا ہے بلکہ اس دوران 69 مذہبی مقامات کی بے حرمتی بھی کی گئی ہے۔ حیران کن طور پر بے حرمتی کے ان 69 واقعات میں سے 64 محض ایک سال یعنی 2023 میں پیش آئے۔

مذہبی تشدد کے سال بہ سال بڑھتے واقعات کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟

مذہبی منافرت باوجود تمام کوششوں کے ملک میں مسلسل بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی سے نئی شکلیں بھی اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مذہبی انتہاپسندی ہے، جسے مذہبی جنونیت پسند اپنی نظریاتی تعلیمات کے ذریعے پھیلاتے ہیں اور انتہاپسند ان نظریات کو معاشرے میں لاگو کرنے کیلئے اپنے پر تشدد اور جنگجویانہ طریقے کا استعمال کرتے ہیں۔ تقریباً دو دہائیوں تک عسکریت پسند گروہوں کو برداشت کرنے کے بعد، جنہیں اکثر داخلی اور خارجی ایجنڈوں کی تکمیل کی خاطر خفیہ طور پر ملک میں پناہ دینے کا الزام بھی ملک پر لگایا جاتا رہا ہے، پاکستان نے ابھی حال ہی میں دو عسکریت پسند گروپس پر پابندی لگائی ہے۔ ان میں سے ایک حافظ گل بہاد گروپ ہے جو کبھی 'اچھا اور محب وطن طالبان' گروہ سمجھا جاتا تھا۔ اب وہ ملک کے خلاف مسلسل دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کے بعد ملک کے پالیسی سازوں کو اس بات کا یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ وہ اتنا اچھا نہیں جتنا اسے وہ کبھی سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ ان دونوں گروپس نے حال ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے اور وہ افغانستان میں رہتے ہوئے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ پاکستان میں جاری رکھتے ہیں۔

ان تنظیموں پر پابندی لگانے سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کس قدر کمی واقع ہو سکے گی اس بارے میں اس وقت تو کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں جبکہ یہ تنظیمیں ملک ہی میں موجود تھیں ان پر اس قسم کے اقدامات سے کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اب جبکہ یہ گروہ ملک سے باہر مقیم ہیں تو ایسے حالات میں ان اقدامات سے مثبت نتائج کی صرف امید ہی رکھی جا سکتی ہے اگرچہ اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ وہ نتائج کیسے ہوں گے؛ مثبت یا منفی۔ تاہم ایک اہم بات جو اس مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے ناصرف ان عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی لگائی ہے بلکہ ان میں سے ایک اہم تنظیم جو تحریک طالبان پاکستان ہے، اس کو 'فتنہ الخوارج' کا لقب بھی دیا ہے اور اس کے اسلام کے خلاف اور اسلامی تعلیمات اور روح کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے پیش نظر یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ اسے آئندہ فتنہ الخوارج کے نام سے پکارا جائے گا۔

حکومت کی جانب سے عسکریت پسند گروہوں کے مذہبی نظریے کو مسترد کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، وہ پہلے بھی ایسا کرچکی ہے لیکن اس مرتبہ جو لب و لہجہ اور مؤقف اختیار کیا گیا ہے وہ پہلے سے بے حد مختلف ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کے مذہبی دہشت گردی کے بارے نظریات میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو فتنہ الخوارج کے نام سے پکارنا اس بات کی دلیل ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور ان جیسی دوسری تنظیمیں مذہبی منافرت کو اپنے مضموم مقاصد کیلئے مذہب کو ایک مقدس جواز کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ لوگ ان کی قتل وغارت گری پر توجہ دینے کے بجائے ان کے ظاہری مذہبی لگاؤ پر دھیان دیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہبی منافرت کی اس ملک میں ایک یہی شکل نہیں، اور بھی کئی ایک ایسے رویے ہیں جن کا منبہ مذہبی منافرت ہے۔

رشوت خوری کو ہمارے ہاں اکثر ایک اہم ترین مسئلہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ مذہبی منافرت تمام جرائم کی جڑ ہے۔ ملک میں پھیلی ہوئی دہشت گردی مذہبی منافرت کی ایک انتہائی شکل ہے، جسے کبھی داخلی اور خارجی قوتوں نے اپنے مضموم سیاسی مقاصد کے لیے فروغ دیا تھا اور اب یہ حکومت کی اتھارٹی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کے داخلی اور خارجی معاملات بھی متاثر ہو رہے ہیں مثلاً اس کی وجہ سے چین کے ساتھ کیے گئے اقتصادی منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، یہ ملک میں معاشرتی و مذہبی ہم آہنگی کے لیے ایک خطرے کا باعث ہے کیونکہ یہ گروہ اپنے علاوہ دیگر مذاہب اور فرقوں کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ ان کے دہشت گردانہ اقدامات نے پاکستان کو ایران اور افغانستان جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازع میں مبتلا کر دیا ہے۔ مزید براں، وہ ایک ایسی ذہنیت کو پروان چڑھاتے ہیں جو خودپسندی کے ایسے احساسات پر مبنی ہوتی ہے، جہاں اپنے علاوہ سب غلط اور مرتد سمجھے جاتے ہیں جن کی گردن زنی کرنا ان کے لیے جائز ہوتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے بعد سے ناصرف پاکستان میں دہشت گردی میں شدت آئی ہے بلکہ فرقہ وارانہ تشدد میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔ عاشورہ سے ایک ہفتہ قبل افغان طالبان نے عاشورہ کی تقریب کے خلاف ایک مہم شروع کی اور انہوں نے عاشورے کی تقریبات کو 'سیاسی بدعت' قرار دیا کیونکہ قرآن مجید میں اس کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ طالبان حکام نے مزید یہ حکم نامہ بھی جاری کیا کہ ایسی بدعات سے پرہیز کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوئیں جن میں طالبان کے ارکان کو شیعہ علاقوں میں عاشورہ کے جھنڈوں کو اتارتے اور پھاڑتے ہوئے دکھایا گیا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ ایسے جھنڈے عوامی مقامات جیسے سڑکوں یا چھتوں پر نہیں لگائے جانے چاہئیں۔

ان واقعات کے چند دنوں بعد افغانستان کے صوبہ سرِپُل میں امام زادہ یحییٰ کے مزار پر محرم کی تقریب کے دوران ایک دستی بم دھماکے کے نتیجے میں 7 افراد زخمی ہو گئے۔ 21 جولائی 2024 کو افغان اخبار 'ہشت صبح' نے خبر دی کہ طالبان کے وردی میں ملبوس افراد نے صوبہ ارزگان میں شاشپر کے مقام پر ایک ہزارہ شیعہ عالم دین رستم رحیمی کو چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا اور موقع واردات سے فرار ہو گئے۔

یہ محض ایک اتفاق تھا یا حقیقت، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن افغانستان میں شیعہ فرقے کے خلاف ان واقعات کے فوراً بعد دو بڑے ایسے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے جن میں ان دہشت گرد گروہوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی جو افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ 18 جولائی 2024 کو مسقط میں ایک شیعہ مسجد میں 6 افراد کو قتل کر دیا گیا، جس کی ذمہ داری کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی۔ مرنے والوں میں چار پاکستانی، ایک بھارتی اور ایک مقامی پولیس افسر شامل تھے۔ دو ہفتے بعد پاکستان کی کرم وادی میں زمین کے تنازعے پر گولیاں، مارٹر اور راکٹ چل پڑے، جو بعد میں سنی اور شیعہ کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپ میں بدل گئے۔ ان فرقہ وارانہ جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 49 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ کسی عسکریت پسند گروہ نے ان جھڑپوں میں اپنی شمولیت کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم، خیبر پختونخوا اسمبلی میں امن وامان کی صورت حال پر بحث کے دوران جے یو آئی (ف) کے محمد ریاض نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا، 'کرم ضلع میں جھڑپوں کے لیے کالعدم تنظیموں کے 4,000 افراد کی ملیشیا تیار کی گئی تھی اور علاقے میں گولہ بارود کے ذخائر موجود تھے'۔

عسکریت پسندوں اور انتہاپسندوں کے نشانے پر صرف شیعہ فرقے کے افراد ہی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں تقریباً تمام دیگر مذہبی عقائد کے افراد بھی اس قسم کے تشدد کا شکار ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی جانب سے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق 2019 سے 2023 کے دوران ملک میں تقریباً 389 افراد فرقہ وارانہ تشدد کے باعث جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد سنی مسلمانوں کی تھی (171 افراد)، اس کے بعد شیعہ (104) اور ہزارہ شیعہ (37)، مسیحی (12)، احمدی (11)، ہندو (9)، سکھ (6)، اور اسماعیلی (1) شامل ہیں۔

اعداد وشمار کے مطابق مذہبی منافرت نے پچھلے چار سالوں میں ناصرف 389 افراد کو موت کی نیند سلایا ہے بلکہ اس دوران 69 مذہبی مقامات کی بے حرمتی بھی کی ہے۔ ان مقامات میں سے اکثریت احمدیہ کمیونٹی کی تھی (37)۔ اس کے علاوہ توہین مذہب کی بنیاد پر جڑانوالہ میں 22 گرجا گھروں کو جلانے اور نقصان پہنچانے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ 4 مساجد پرخودکش حملے، بم دھماکے، اور ایک پولیس اہلکار کو دوران نماز موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 2 ہندو مندروں، 1 عید میلادالنبی کے جلوس پر خودکش حملہ، اور ایک سکھ گردوارہ کی بے حرمتی کی گئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان 69 بے حرمتی کے واقعات میں سے 64 واقعات صرف ایک سال یعنی 2023 میں پیش آئے۔

احمدیہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہے جس کے مطابق ایسی احمدیہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی ممنوع ہے جو مساجد کی مانند دکھائی دیتی ہیں اور توہین مذہب کے قانون کے نفاذ سے پہلے تعمیر کی گئی تھیں۔ ان مذہبی مقامات کی ہئیت کو زبردستی تبدیل نہیں کیا جا سکتا، نا ہی توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، اور نا ہی انہیں توہین مذہب کے حالیہ واقعہ کے طور پر سجھا جا سکتا ہے۔ اس عدالتی حکم نامے کے باوجود، پرانی یعنی توہین مذہب کے نئے ترمیمی قانون کے اطلاق سے قبل تعمیر شدہ احمدیہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی جاری رہی ہے، خاص طور پر پنجاب میں، اور اکثر تو پولیس کی سرپرستی میں ایسے اقدامات کئے گئے۔

یہ بھی پڑھیں؛ مینار کے ڈیزائن پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں، احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے؛ لاہور ہائی کورٹ

پنجاب کے برعکس سندھ پولیس نے کراچی کے مارٹن روڈ علاقے میں احمدیہ عبادت گاہ پر حملے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 147، 148، 149، 427، 504، 506-بی، اور 295 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت ایف آئی آر درج کی، لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

مذہبی بنیاد پرست اکثر ایسے عدالتی احکام کو نظرانداز کرتے ہیں کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کی طرح مذہبی بنیاد پرست بھی اپنے مذہبی عقائد کو سب سے اہم اور خود کو تمام قانونی پابندیوں سے ماورا سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے نظریات کو دوسرے لوگوں پر بزور ثبت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کیلئے وہ اکثر قانون شکنی کے اقدامات کیلئے بھی تیار رہتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا وہ اس پرتوجہ ہی نہیں دینا چاہتے کہ ان کے یہ اقدامات کس طرح ملک میں انارکی اور قانون شکنی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتیں بھی دہشت گردی کے واقعات پر کبھی غصے کا اظہار نہیں کرتیں، علاوہ چند ایک احتجاجی بیانات دینے کے۔

جولائی کے مہینے میں ایک مذہبی جماعت، تحریک لبیک پاکستان، نے دہشت گردی کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اس جماعت کے نائب امیر پیر ظہیر الحسن شاہ نے لاہور پریس کلب کے باہر ایک احتجاج کے دوران عدلیہ کے خلاف نفرت پھیلائی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سرقلم کرنے پر 10 لاکھ پاکستانی روپے انعام دینے کا اعلان کیا کیونکہ انہوں نے حال ہی میں ایک احمدی کو جس پر توہین مذہب کا الزام تھا اور وہ اپنی سزا پوری کر چکا تھا، اسے بری کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں؛ پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مذہبی تنظیم کے نمائندے کی جانب سے ایسی دھمکی دینے پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جس میں مسلم لیگ نواز کے اراکین اعظم تارڑ اور حنیف عباسی کے علاوہ تمام دیگر جماعتوں کے ممبران نے دھمکی دینے والے کے بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کے اس متنازعہ عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں توہین مذہب کے ایک احمدی ملزم کو انہوں نے بری کر دیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی نے کہا کہ ملک میں فتویٰ دینے کی فیکٹریوں میں اضافہ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سنی تحریک کے صاحبزادہ حامد رضا اور جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری نے سپریم کورٹ پر الزام لگایا کہ وہ قانون لاگو کرنے کے بجائے آئین سازی کے اقدامات کر رہے ہیں جو ان کا کام نہیں۔ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے وفاقی وزیر قانون سے کہا، 'براہ کرم ان ججوں کو بتائیں کہ وہ ایسے احکامات جاری کر کے ملک میں فتنہ پیدا کر رہے ہیں'۔

اس وقت جبکہ سیاسی رہنما اس موضوع پر نظریاتی اختلافات کا شکار تھے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر کسی اختلاف کا اظہار کرنے کے بجائے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ کوئی بھی فرد، گروہ، یا ہجوم قانونی یا مذہبی طور پر اس بات کا اختیار نہیں رکھتا کہ وہ خود کو جج سمجھے اور کسی کے قتل کے لیے فتویٰ یا حکم نامہ جاری کرے۔

تاہم، عسکریت پسندوں نے اس فتویٰ پر فوری لبیک کہا اور ججوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لیے کافی مناسب سمجھا۔ قومی اسمبلی کی بحث کے دو دن بعد دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا میں مقامی عدالتوں کے ججوں کو لے کر جانے والے قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکاروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا، جبکہ جج صاحبان اس حملے میں محفوظ رہے۔ عسکریت پسندوں کے لیے اتنا ہی کافی تھا کیونکہ وہ عدلیہ کو اپنا یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ اس فتویٰ پر عمل درآمد کرنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔

یہ تمام واقعات مذہب کے نام پر ملک میں بڑھتی ہوئی تشدد اور عدم برداشت کی فضا کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کا سلسلہ اب عدالت عالیہ کے سربراہ تک جا پہنچا ہے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے مقابلے میں عدالت عالیہ کے سربراہ کو مورد الزام ٹھہرانے میں لگے ہیں۔ اس صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اور عسکریت پسند گروہ دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف مذہبی بیانیے کا استعمال کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادی ملک میں اپنے طرز کی اسلامی شریعت نافذ کرنے کیلئے کوشاں ہیں تو حکومت ان کے عقائد کو فتنہ قرار دے رہی ہے، اور انہیں اسلام کی اصل تعلیمات سے متصادم سمجھ رہی ہے۔ وہیں مذہبی اور سیاسی جماعتیں عدلیہ پر فتنہ پیدا کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔

یہ نظریاتی اختلافات ملک میں امن و امان قائم کرنے، باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے، اور قومی یکجہتی کے حصول کے لیے نہایت ہی پیچیدگیاں پیدا کر رہے ہیں۔ ان حالات پر قابو پانے کیلئے پالیسی سازوں کیلئے بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور تمام تر حساس مسائل کو صبر اور تجزیاتی پختگی کے ساتھ حل کرنے کا طریقہ وضع کریں، ورنہ ملک میں جاری تشدد اور عدم برداشت کا یہ سلسلہ مزید زور پکڑتا جائے گا جس کے نتیجے میں نہ تو مسلم، غیر مسلم، اور نا ہی ان کی مذہبی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔