سانحہ چونیاں: کیا ملزم سہیل شہزاد کو سزا ملنے کے بعد بچے محفوظ ہو جائیں گے؟

سانحہ چونیاں: کیا ملزم سہیل شہزاد کو سزا ملنے کے بعد بچے محفوظ ہو جائیں گے؟
سانحہ چونیاں کب ہوا تھا؟ ملزم کون تھا؟ سانحہ چونیاں کی وجوہات کیا تھیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ملزم کی گرفتاری کے ساتھ ہی دم توڑ گئے۔ پل پل کی خبر نے معاشرے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا مگر یہ صرف ایک وقتی وبال تھا، جو آہستہ آہستہ روایتی بے حسی کی طرف گامزن ہے۔

سانحہ چونیاں کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کا اعلان پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کیا تھا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم سہیل شہزادہ کی گرفتاری کا اعلان ڈی این اے ٹیسٹ اور 200 فیصد تحقیق کے بعد کیا جا رہا ہے۔

آپ یہ جانتے ہیں کہ قصور میں ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ جون 2019 میں 4 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، ان میں سے ایک بچے کی نعش اور تین بچوں کی باقیات ملیں، جن کی شناخت ہڈیوں اور کپڑوں سے ہوئی۔ ان چار بچوں میں فیضان، علی حسنین، سلمان اکرم اور محمد عمران شامل تھے۔

ان مقدمات کی تفتیش سائنسی بنیادوں پر کی گئی اور ریکارڈ یافتہ تمام ملزمان کی جیوفینسگ کرائی گئی۔ 1649 لوگوں کی جیوفینسگ اور 1543 لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ فیضان کے کپڑوں اور علی حسنین کے کپڑوں پر لگے خون سے ایک ملزم کا ڈی این میچ کر گیا اس ملزم کی شناخت سہیل شہزادہ ولد محمد اسلم کے نام سے ہوئی جس کی عمر 27 سال تھی۔

وزیراعلیٰ نے ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلہ میں تمام قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں، یہ کیس فوری اے ٹی سی کورٹ میں چلے گا اور روزانہ کی بنیاد پر عدالت میں سماعت ہو گی۔ پنجاب حکومت تمام مظلوم خاندانوں کو یقین دلاتی ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہو گا۔

وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ میں نے پراسیکیوٹر جنرل کو ہدایت کی ہے کہ اس کیس کی پیروی کریں اور میں خود اس کیس کی نگرانی کروں گا، انشااللہ متاثرین کو انصاف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

پریس کانفرنس کے آخر عثمان بزدار نے چونیاں کو سیف سٹی اور قصور میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے ملزم کی تصویر دکھائی تھی۔

سانحہ چونیاں کا فیصلہ آج متوقع ہے، فیصلہ کیا ہو گا اس بارے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر سوال یہ ہے کہ بچوں کے تحفظ کے تمام وعدے اس کیس کے ختم ہونے کے بعد مکمل ہو جائیں گے۔ کیا بچوں کے والدین کو دس، دس لاکھ روپے کے امدادی چیک معاشرے کے دوسرے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کافی ہیں؟ کیا عوامی آگہی مہم کے سفر کو جاری رکھا جائے گا؟

دیکھا جائے تو اس وقت معاشرہ سو رہا ہے، ادارے بھی عوامی آگہی مہم صرف فوٹو سیشن کی حد تک کر رہے ہیں اور عوام آسمان کی طرف نظر کر کے اللہ سے ہی حفاظت کی دعا کر رہے ہیں۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔