پاکستان میں گذشتہ کئی ہفتوں سے ہر طرف پی ڈی ایم اور حکومت کے درمیان ہونے والی سیاسی دھینگا مشتی ہی زبان زد عام تھی۔ لیکن اچانک پچھلے دو دن اور دو راتوں میں کہیں سے اسرائیل نے اس موضوع سے یہ اعزاز چھین لیا اور اس وقت اسرائیل بطور سابقہ یا لاحقہ ہر سیاسی بحث میں موجود ہے۔ نواز شریف پر لعن طعن ہے تو بنیاد اسرائیل ہے۔ مریم نواز پر تنقید ہے تو وجہ اسرائیل ہے یا پھر وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواریوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ہے تو بھی ذکر اسرائیل کے ساتھ ہے۔
ہر مخالف اسرائیلی ایجنٹ ہے اور پاکستان اور اسلام کا غدار ہے۔ یہ اچانک تبدیلی آئی کیسے؟ معاملے کا کھوج لگائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر معتدل اسلام کے پیغام کی ترویج پر کاربند ایک برطانوی اسلامی ادارے کے سکالر نے یہ انکشافات کیے ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے ایک معاون جو کہ برطانوی پاسپورٹ رکھتے ہیں انہوں نے گذشتہ ماہ اسرائیل کا دورہ کیا ہے اور وہاں اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے چیف سمیت اہم ترین لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک پورا وفد بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے۔
ان کے بقول ان دوروں کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اسرائیل کے تعلقات قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔
دوسری جانب اسے سے ملتی جلتی خبریں اسرائیلی میڈیا نے بھی شائع کی ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر ان افواہوں کو ایک چہرہ بھی دے دیا گیا ہے اور اس اسرائیلی محبت کے جلتے ہوئے ہار کو ذلفی بخاری کے گلے پہنا دیا گیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ذلفی بخاری ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے یہ دورے کیے ہیں۔ اس کے جواب میں ذلفی بخاری نے اسے اسرائیلی بھارتی لابی کا پراپیگنڈا قرار دیا ہے جب کہ وزارت خارجہ چپ سادھے یوں بیٹھی ہے کہ جیسے کسی سانس کی آواز سے بھی حب اسرائیل کا یہ الزام بھیڑیا بن کر اس پر نہ پل پڑے۔ اس معاملے کی نزاکت کا اندازہ کچھ یوں ہو کہ مریم نواز نے پہلے اسلامی سکالر کے انکشافات سے بھرپور کلپ کو اپنی جانب سے عمران خان پر ایٹم بم گردانتے ہوئے ٹویٹ کر دیا، پھر احساس ہوا کہ اس میں تو بمباری ان کے سیاسی خانوادے پر بھی کی گئی ہے تو ٹویٹ حذف کر دی۔ بس پھر کیا تھا؟ سیاسی پراپیگنڈا کی گدلی ندیا میں سب سیاسی دھوبی اپنے اپنے گندے کپڑے لے کر آن پہنچے۔
بہر حال معاملہ جو بھی ہے۔ ریاست پاکستان اگر اسرائیل سے تعلقات بحال کرنا چاہتی ہے اور اس پر نظر ثانی کروانا چاہتی ہے تو معاملے کو پارلیمنٹ میں لایا جانا چاہیے۔ اس پر بحث کی جانی چاہیے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مثبت و منفی پہلوؤں پر نظر ڈالنی چاہیے۔ فلسطین کے مسئلے پر اخلاقی مؤقف جو ہمیشہ پاکستان نے اپنایا ہے اگر اسے ترک کرنا ہے تو بھی اس کے لاشے کو تلف کرنے کا صحیح انتظام کیا جانا چاہیے، اور یہ سب عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ جب کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اسرائیل کے معاملے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ شاید آپ کو وقتی فائدے تو دلوا دے لیکن طویل المدتی طور پر یہ اژدھا آپ کے گلے بھی پڑے گا۔ اس لئے اس حوالے سے فیصلہ لینے کے لئے ایسا ماحول بنانے میں مدد دیجیے کہ جہاں کم از کم اس مسئلے پر بحث ہونے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔
ورنہ جیسے کشمیر کا مسئلہ اب مزید ابہام اور اندھیرے میں جا چکا ہے، ویسے ہی اسرائیل پر بھی ہماری پالیسی پر اگلے ستر سال سوالات ہوں گے اور ہماری حکومتوں کی چھپنے کی کوششیں بھی یوں ہی جاری رہیں گی جس کا فائدہ کم از کم ریاست اور عوام کو نہیں ہوگا۔