امہ یا امت تنظیم، نظم اور تنظیمی اجتماعیت کا نام ہے۔ جو کبھی خلافت کے نام پر قائم رہی ہے۔ خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی امہ کا تصور بھی ختم ہو گیا ہے اور مسلمانوں کے الگ الگ ملک میں الگ الگ نظم و نسق قائم ہو گیا اور ہر مسلم ملک نے اپنے اپنے آئین اور نظم کے تحت سربراہ منتخب کر لیا ہے۔
اجتماعی نظم اور امت کا ایک امام یا خلیفہ نہیں رہا تو مسلم امت واحدہ سے الگ الگ ملکوں کی شکل میں تقیسم ہوئی جس کے بعد امہ یا امت کا کوئی وجود باقی نہیں رہا ہے۔ اب محض کچھ لوگوں کا وہم ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں۔
پاکستان میں تصوراتی اور خیالی نظریات کی تبلیغ و فروغ کا کلچر موجود ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لئے باقاعدہ اور منظم لاتعداد فورم، تنظیمیں اور جماعتیں قائم ہیں جو نئی نسل کو ایک خیالی اور تصوراتی دنیا کے سبق پڑھاتی ہیں۔
لال قلعہ پر پاکستانی پرچم لہرانے سے لیکر بھارت اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے تک ایک عقیدے طرح مضبوط خیال پایا جاتا ہے۔ غزہ ہند کی بھی بشارت دی جاتی ہے۔
امت یا امہ کی تصویر کشی ایسی کی جاتی ہے کہ پاکستان کے کسی پسماندہ علاقے کی چھوٹی سی مسجد کا خطیب پوری دنیا فتح کرنے کے لئے خون گرمانے پر جتا ہوا نظر آتا ہے۔ امت کی غلط فہمی کا شکار صرف پاکستانی ہیں باقی مسلم دنیا میں امہ کی بات کم ہی کی جاتی ہے۔
اصل میں پاکستان میں مولوی ہو، سیاستدان ہو، عالم دین ہو یا طاہر القادری اور مولانا طارق جمیل صاحب ہوں! حقیقت بتانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ یہ افراد حق، حقائق اور سچائی بتانے کی بجائے مزید الجھاؤ پیدا کرتے جاتے ہیں۔
امہ، امت وحدہ کی حقیقت کھول کر کیوں نہیں بتاتے ہیں کہ امہ کا تصور امامت اور خلافت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب امامت اور خلافت نہیں رہی ہے تو امت بھی نہیں رہی ہے۔
کئی اسلامی ممالک ہیں، ان کے ساتھ ہر دوسرے ملک کے اپنے تعلقات ہیں۔ اچھے بھی ہیں اور خراب بھی ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ افغانستان ہے۔ ایران ہے، اپنے مفادات کے تحت ان سے تعلقات ہیں، ایران اور افغانستان کے پاکستان سے زیادہ بھارت سے اچھے مراسم ہیں، اسی طرح عرب ممالک ہیں جن کے اپنے مفادات کے تحت مختلف اسلامی ممالک سے قربتیں ہیں اور بعض سے دشمنی بھی ہے، دنیا کے باقی اسلامی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ یہی ہونا چاہیے تھا، امتِ وحدہ والی تو ذرہ برابر بھی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے، ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ خانہ کعبہ، روضہ رسولﷺ کے انتظامات سعودی عرب حکومت کے پاس ہیں۔ امت کے اجتماعی انتظام میں نہیں ہیں۔ امت کے مسائل اور مشکلات کے لئے امام کعبہ کی سربراہی میں کوئی فورم یا بیت العدل اعظم الہی جیسا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ امت کے اجتماعی فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟ پاکستان میں کوئی نہیں جانتا ہے۔
پاکستانیوں کو ایک خیالی امت کا بتایا گیا ہے جو وقت آنے پر کہیں نظر نہیں آتی ہے، جس کا تجربہ مسئلہ کشمیر پر ہوا ہے کہ مسلمان کشمیری ظلم وبربریت کا شکار ہیں اور امت کے عربی سپوت اپنے ملک کا اعلیٰ ترین سول انعام بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے گلے میں ڈال کر امت کے تصور کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ پاکستان کے مسلمان اگر امت کے تصور سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں تو پھر انہیں امت بنانے اور امت کا حقیقی وجود قائم کرنے کے لئے خانہ کعبہ اور مقدسات کو مسلمانوں کے اجتماعی نظم و نسق میں لینے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ زبانی کلامی امت نہیں بنتی ہے۔ خلافت یا امامت کا قیام اگر ممکن نہیں ہے تو مسلم اقوام متحدہ قائم کر کے مسلم امہ کی اجتماعیت پیدا کی جاسکتی ہے۔ مکہ اور مدینہ کو سعودی شہزادوں کی حکمرانی سے نکال کر مسلم امہ کے اجتماعی مقدس شہر قرار دیا جا سکتا ہے جس کا کنٹرول مسلم اقوام متحدہ کے پاس ہوں۔ اسلامی اتحاد کے نام سے سعودی عرب میں پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ملازمت کر رہے ہیں وہ صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زید حامد قبیل کے مجاہدین جنرل راحیل شریف سے بات کریں۔ بصورت دیگر سچ بولیں اور امت کی گردان کرنا چھوڑ دیں ۔