پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم وکلا برادری، ججز کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وکلا کی تحریک سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، میرے حساب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو سموسے، چینی کی قیمت کا تعین نہیں بلکہ آئینی معاملات کے فیصلے کرنے چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ وہ مقام ہے جہاں قانونی تصورات، آئینی نظام، بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد ہونی چاہیے یہ فیصلہ نہیں کہ کہاں ڈیم بنانا ہے کہاں نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2008 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد یقین تھا کہ مشکلات کے باوجود پاکستان آہستہ آہستہ جمہوریت کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن عمران خان کے دور میں واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان جمہوریت کی جانب نہیں بلکہ اس کے مخالف سمت بڑھ رہا ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان جمہوریت کی جانب نہیں بلکہ آمریت کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے خلاف ہمیں لڑنا ہوگا۔
https://twitter.com/MediaCellPPP/status/1494203917852368896
ان کا کہنا تھا کہ 12 مئی کو آزاد عدلیہ کے لیے پیپلز پارٹی کے کارکنان شہید ہوئے، آزاد عدلیہ کی جدوجہد کسی ایک جج کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کے تصور کے لیے تھی جو اس وقت تک کام نہیں کرسکتی جب تک قانون پر چلنے والی عدلیہ نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں رکنِ قومی اسمبلی کی حیثیت سے پہنچا ہوں، پارلیمنٹ کا کردار ہماری توقع پر پورا نہیں اترا اور شاید یہ پاکستانی کی تاریخ کی بدترین کارکردگی والی پارلیمنٹ ہے، ہم اپنے اداراے کی بہتری کے لیے کوشش کررہے ہیں، یہ جدوجہد نہ صرف میرے لیے نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے لیے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون معاشرے کو جوڑے رکھتا ہے یہ ریاست اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے جس کے بغیر کوئی ترقی، مہذب معاشرہ یا جمہوریت ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میری جماعت اور میرا قانون کے ساتھ خصوصی رشتہ رہا ہے، جب پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو ڈان اخبار نے لکھا کہ 'وکلا کے ایک گروپ نے ایک سیاسی جماعت بنائی ہے' اور آج 55 سال بعد بھی وکلا کی بنائی پارٹی قانون کی عملدآری، آئین کی بالادستی اور عوام کے لیے جدو جہد کررہی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان ایک وکیل نے بنایا اور اسے آئین اور جمہوریت بھی ایک وکیل نے دی، میں نے اپنے نظام انصاف کو دیکھا ہے اور اس کا شکار رہا ہوں جب اپنی والدہ کے ساتھ والد سے ملنے جیل آیا کرتا تھا جنہوں نے کوئی جرم ثابت ہوئے بغیر ساڑھے 11 سال قید میں گزارے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہید بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے 30 سال ریاست اور اس وقت کی حکومتوں، نیب کی جانب سے مقدمات کا سامنا کیا اور تاریخ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ 'یااللہ یا رسول بینظیر بے قصور'۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں یہ کیسز چلتے تھے، افتخار چوہدری کے دور میں انہی عدالتوں نے ہر ایک کیس سے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو انہی مقدمات سے باعزت بری کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار علی کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا اور ان کا عدالتی قتل کرنے کی سازش اسی لاہور ہائی کورٹ میں کی گئی اور جنہوں نے قتل کی سازش کی وہ تاریخ کے کوڑے کے دان میں پھینک دیا گیا، ان کا نام ہمارے آئین، جمہوریت اور ادارے کے نام پر دھبہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستانی عوام کا فیصلہ واضح ہے، ہم اب بھی پاکستان کی عدالتوں کی جانب سے اس تاریخی غلطی کی اصلاح کے منتظر ہیں، یہ ذاتی درخواست نہیں جب سابق صدر آصف زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں انصاف کے لیے ریفرنس بھیجا تو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ داماد تھے بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ یہ پاکستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستانی عدلیہ پر سے یہ دھبہ صاف کرنے کا وقت ہے تاکہ دنیا کو ثابت کرسکیں کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے جسے ماضی کی ناانصافیوں، تاریخی غلطیوں اور غیر قانونی فیصلوں سے چھٹکارا پانا ہوگا جس میں آمروں کی حکمرانی کی توثیق کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی جمہوری نظام کی روح ہوتی ہے، جس کے تحفظ کی ذمہ داریوں تمام سیاستدانوں، وکلا اور ججز پر عائد ہوتی ہے، افسوس کی بات ہے کہ تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور انصاف کا ترازو زیادہ تر جابر لوگوں کے حق میں جھکا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غلطیوں کی تاریخ کے باوجود ہمارا قانون سے اعتماد ختم نہیں ہوا، مقدمات، انتقامی کارروائیوں نے منصفانہ عدالتی نظام کی جدوجہد کے لیے ہمارا عزم اور مضبوط کیا ہے۔
چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ہم ایک خاندان یا سیاسی جماعت کے لیے جدوجہد نہیں کررہے بلکہ اس نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں جس نے لاکھوں لوگوں کو ناکام کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں منصفانہ ٹرائل، مناسب طریقہ کار اور جیلوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں، کوئی جدید ریاست منصفانہ نظام قانون کے بغیر نہیں چل سکتی۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایسے احتساب کے نظام کی ضرورت ہے جو منصفانہ، بلا امتیاز ہو، مخالفین اور حکومتی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے والوں کے خلاف موجودہ انتقامی کارروائیوں اور مقدمات کی طرح نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ بنیادی حکومت، منصفانہ ٹرائل اور مناسب طریقہ کار کے حقوق یقینی بنائیں لیکن بدقسمتی سے اکثر ایسا نہیں ہوتا۔