آزاد جموں کشمیر کے انتخابی عمل سے غائب سیاسی معیشت

آزاد جموں کشمیر کے انتخابی عمل سے غائب سیاسی معیشت
1947 کے بعد سے پاکستان میں حکومتوں کے لئے 'مقبوضہ کشمیر' کی ایک غیر معمولی اہمیت تو رہی ہے لیکن آزاد جموں کشمیر (پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) کا پاکستان میں ہونے والے اہم امور میں کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے۔

چند ہفتوں میں آزاد کشمیر میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا پر ان انتخابات کے حوالے سے تھوڑی ہی سہی لیکن بات ضرور ہو گی اور تجزیہ نگار یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ عام انتخابات میں کس سیاسی جماعت کا پلڑا بھاری ہے۔

تاریخی اعتبار سے وفاق نے آزاد جموں کشمیر کو ہمیشہ ایک جغرافیائی تنازع کی نظر سے دیکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اس خطے کی معاشی و معاشرتی ترقی ایک خاص قسم کی سیاست کے ہاتھوں یرغمال ہے جو آزاد جموں کشمیر کی معاشی بدحالی کی وجوہات کو مسئلہ کشمیر تک محدود کرتی ہے۔

بجائے اس کے کہ سیاسی اور ریاستی قوتیں مقامی اداروں کو مضبوط کرنے اور جمہوری بنانے کے لئے اقدامات اٹھاتیں تاکہ عوام کے لئے پائیدار ترقی یقینی بنائی جا سکے، یہ اپنی تمام تر توجہ بھارتی مقبوضہ کشمیر پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

سیاست اور معاشیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور خطے کی سیاست کی توجہ پچھلی سات دہائیوں سے سرحدی تنازع پر مرکوز ہے جس کے باعث عوام کے روز مرہ کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

آزاد جموں کشمیر میں نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

یہاں اگر کوئی نچلے طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے تو اس کے لئے یہ خطہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ روزی کمانے کے مواقع ڈھونڈنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد جموں کشمیر کے اکثر ضلعوں کی پاکستان کے مختلف علاقوں کی نسبت بیرون ملک ہجرت کرنے والے افراد کی فی کس تعداد کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

عام انتخابات صرف چند ہی ہفتے دور ہیں لیکن تاحال کسی بھی سیاسی جماعت نے، چاہے وہ پاکستان مسلم لیگ ن ہو، پاکستان تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی، معاشی و معاشرتی فلاح و بہبود سے متعلق مؤثر پروگرام وضع نہیں کیا۔

اس حوالے سے ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ آزاد جموں کشمیر میں سیاست کا محور دھڑے بندی اور برادری نظام ہے اور اس سے ممکنہ طور پر سیاسی اشرافیہ کے مفادات جڑے ہوئے ہیں جو امیر بھی ہے، نسل در نسل سیاست بھی کرتی آ رہی ہے اور پدرشاہی نظام پر یقین رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں معاشرتی ترقی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے موضوعات پر گفتگو کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

ترسیلات زر آزاد جموں کشمیر کی مقامی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ترسیلاتِ زر نے بنیادی طور پر کھپت بڑھا دی ہے جس کے باعث مقامی آبادی مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ منڈی کے اتار چڑھاؤ کے باعث معاشرے کے نچلے طبقے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ترسیلاتِ زر خطے میں ہنرمند اور پڑھے لکھے افراد کے انخلا کے بعد میسر آتی ہیں۔

ریاستی اور معاشرتی طور پر نظر انداز کیے جانے کے باعث زراعت اور سیاحت کے شعبوں میں خاطر خواہ ترقی نہیں دیکھی گئی حالانکہ ترسیلات زر کے حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔

قصبوں اور شہروں میں منصوبہ بندی ناپید ہونے کے باعث آزاد جموں کشمیر میں قابلِ کاشت علاقے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 1951 سے 2010 کے درمیان تقریباً 28 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

متعدد دیگر عوامل کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ امیر گھرانے قابلِ کاشت زمین کو عمارتوں کی تعمیر کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ زراعت ایک عرصے سے یہاں معاش کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے لیکن اس میں وقت کے ساتھ جدت نہیں لائی گئی۔

مثال کے طور پر آزاد جموں کشمیر کی 92 فیصد قابلِ کاشت زمین کا مکمل انحصار بارشوں پر ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کم پیداوار کی ایک اہم وجہ ہے۔

جہاں اس خطے کے پہاڑی علاقوں میں زرعی پیداوار بہتر بنانے میں جغرافیائی اور ماحولیاتی رکاوٹیں حائل ہیں وہیں دریائے جہلم اور پونچھ کے اردگرد میرپور اور بھمبر کے علاقوں میں زراعت کے لئے ماحول سازگار بھی ہے۔ زرعی نظام میں سرمایہ کاری سے پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔

اسی طرح چھوٹے پیمانے پر کیے جانے والے کاروبار اور سیاحت کو فروغ دے کر معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور بیروزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ عوام کی شمولیت کے ساتھ استحصال سے پاک معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ایک پالیسی آپشن یہ ہے کہ نئی کمپنیاں بنائی جائیں جن کی ملکیت اور انتظام مزدوروں کے ہاتھوں میں ہو۔

اس ضمن میں ریاست کو بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا اور آسان شرائط پر قرض اور ٹریننگ وغیرہ کے ذریعے سازگار ماحول فراہم کرنا ہو گا تاکہ معاشی ترقی میں عوام کو جمہوری انداز میں شامل کیا جائے۔

دوسرے علاقوں سے موازنہ کیا جائے تو آزاد جموں کشمیر کو اپنے منفرد ماحول کے باعث بھی برتری حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس خطے کی ہوا کا معیار پاکستان کے اکثر شہروں سے بہتر ہے اور یہاں حسین قدرتی مناظر بھی بے شمار ہیں۔

آزاد جموں کشمیر کے حوالے سے جو بات عام طور پر سراہی نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ اس خطے میں 40 فیصد علاقہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس کا موازنہ اگر پورے پاکستان سے کیا جائے تو یہاں صرف تین فیصد علاقے پر جنگلات ہیں جو تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ 20ویں صدی کے آغاز میں امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے امریکی نیشنل پارکس کی بنیاد رکھی تھی تاکہ جنگلی حیات اور جنگلات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور آج یہ نیشنل پارکس امریکی شہریوں اور سیاحوں کے لئے منفرد سیاحتی مقامات بن چکے ہیں۔

آزاد جموں کشمیر کو قدرتی نیشنل پارکس کی اشد ضرورت ہے۔ ماحولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگلات اور نیشنل پارکس میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے باعث یہ خطہ آپ کو سیاحت یعنی حیاتیات سے منسلک سیاحت کا گڑھ بن سکتا ہے۔

آزاد جموں کشمیر میں معاشرتی و معاشی خوشحالی کے لئے اسلام آباد اور مظفرآباد کی سیاسی سوچ میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، یعنی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو صرف تنازع تک محدود نہ کیا جائے بلکہ مقامی عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جائے۔

ڈاکٹر دانش خان امریکہ میں معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور پاکستان اور آزاد جموں کشمیر کی معاشی ترقی سے منسلک سوالات پر تحقیق کر رہے ہیں۔