کلثوم نواز: ایک عہد تمام ہوا

کلثوم نواز: ایک عہد تمام ہوا
کل نفس ذائقتہ الموت، تین بار خاتونِ اول رہنے والی بے مثال خاتون کلثوم نواز آخر رخصت ہو گئیں۔ مرحومہ کی انگنت خوبیوں کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ ایک ماں، بیوی اور بیٹی کا کردار جس طرح انہوں نے نبھایا اس کے سارے ہی معترف ہیں۔ انکی زندگی تمام تنازعات سے پاک تھی اور یہی وجہ ہے کہ انکے انتقال پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہماری تہذیب اور روایات دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ اپنے مخالف پر تبرہ بھیجنا فرض عین سمجھا جاتا ہے اور اس میں مرد و زن کی بھی کوئی تخصیص روا نہیں رکھی جاتی۔ کوئی بیمار ہو جائے تو تو اسکے لواحقین سے ہمدردی کرنے کی بجائے اسکا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔

بیگم کلثوم نواز ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ گھریلو خاتون تھیں لیکن جس بہادری سے انہوں نے آمر وقت مشرف کے مقابلہ کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مرحومہ کے خاوند اور بچوں کو جیل کی تاریک کوٹھڑیوں میں دھکیل دیا گیا وہ نہ صرف باہر آئیں بلکہ اپنے بد ترین مخالفین کو بھی یکجا کیا اور ایسی تحریک اٹھائی کہ فرعونِ وقت کے پیر کانپنے لگے اور بالآخر اس نے سارے خاندان کو جلا وطن کر کے اپنا اقتدار بچایا۔

کہتے ہیں کہ سیاست ایسا نشہ ہے کہ ایک بار لگ جائے تو پھر پیچھا نہیں چھوڑتا لیکن محترمہ کلثوم نواز نے اس محاورے کو بھی غلط ثابت کر دیا۔ جیسے ہی میاں نواز شریف میدانِ سیاست میں آئے تو وہ ایک بار پھر اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں مگن ہو گئیں۔ انکی شخصیت کا اثر انکی اولاد پر بہت واضح نظر آتا ہے بلکہ میاں نواز شریف پر بھی انکی ہمہ گیر شخصیت کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔

میاں نواز شریف کی عدالت کے ذریعے نااہلی کے بعد وہ ایک بار پھر میدان سیاست میں وارد ہوئیں اور لاہور کے حلقہ 120 سے اپنے میاں کی چھوڑی ہوئی نشست پر انتخاب لڑا، کامیاب بھی ہوئیں لیکن کینسر جیسے موذی مرض نے انہیں ایک بار پھر اپنے جوہر دکھانے کا موقع نہیں دیا۔

ہارلے سٹریٹ لندن کے ایک کلینک میں ایک سال اور 25 دن تک موذی مرض سے لڑنے کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ افسوس دم آخر نہ انکے پاس وہ خاوند موجود تھا جس کیلئے وہ ساری زندگی جیتی رہیں اور نہ بیٹی مریم جن کو وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یاد کرتی رہیں۔ نواز شریف کے مخالفین کامیاب ہو گئے لیکن انسانیت ہار گئی۔ کیا اب ہم اپنے مخالفین کی جانیں لے کر خوش ہوا کرینگے۔ بلھے شاہ نے کہا کہ 'دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے، سجناں وی مر جانا'۔

مقام عبرت ہے کہ ہم نے اپنے محسن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ جس شخص نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کا دفاع ناقابل شکست بنایا، جس نے سارے ملک کو موٹر ویز کے ذریعے جوڑ دیا، جس نے ملک سے اندھیروں کو دور کیا، پاکستان کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ سی پیک لایا، ہم نے اس سے دشمنوں جیسا سلوک روا رکھ کر آنے والوں کو پیغام دیا کہ ہم اپنے محسنوں سے کیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب ظلم کر کے ہم کہیں اپنے دشمنوں کی خواہش کی تکمیل کا وسیلہ تو نہیں بن گئے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔