ڈاکٹر اقدس افضل نے کہا ہے کہ پاکستان کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اگر شہباز شریف حکومت اس کو ختم کرنے میں اپنا رول ادا نہیں کرتی تو پھر ہمیں ان تمام قیاس آرائیوں کو دوبارہ سے ری سیٹ کرنا پڑے گا کہ آئندہ الیکشن کے بعد کون سی جماعت پاور میں آئے گی۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ جب بھی فسطائی قوتیں کسی بھی سوسائٹی میں سر اٹھاتی ہیں اور اس کی بنیاد میں بحران ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے جرمنی، اٹلی، امریکا اور یونان کی مثالیں موجود ہیں جہاں معاشی بحران آئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت انتہائی مشکل ترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ ہم اس بحران سے نکلنے کیلئے آئی ایم ایف سے بات کر رہے ہیں۔ ہم سبسڈیز کو رول بیک کرنا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی اوپر لے کر جانا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں نئی حکومت کے سامنے یہ مشکلات انتہائی چیلنجنگ ہیں، جہاں ایک طرف وہ اپنے سیاسی مخالفین کیساتھ نبرد آزما ہے تو دوسری جانب اسے ملک کو معاشی بحران سے بھی نکالنے کا چیلنج ہے۔
ڈاکٹر اقدس افضل نے کہا کہ اگر موجودہ مخلوط حکومت اس بحران کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ہمیں ان تمام قیاس آرائیوں کو دوبارہ سے ری سیٹ کرنا پڑے گا کہ آئندہ الیکشن کے بعد کون سی جماعت اقتدار میں آئے گی۔ جب فسطائی قوتیں اپنا سر اٹھاتی ہیں تو اس ملک کی جمہوریت میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ ان کو الیکشن میں گھر بھیج دے۔ اس لئے آنے والے انتخابات اس حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ اس میں پاکستانی عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ پاکستان کا کس قسم کا مستقبل دیکھنا چاہتی ہے۔
ایک دوسرے اہم موضوع پر بات کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ اس کو ڈی سٹیبلائز کرنا کوئی سپر پاور اس وقت سوچ بھی نہیں سکتا۔ دیگر ملکوں کی بات کی جائے تو لیبیا کیخلاف ایکشن سے پہلے انہوں نے اس بات کی تسلی کی کہ ان کا جوہری پروگرام کس سٹیج پر ہے۔ عراق میں بھی انہوں نے جو تھوڑا بہت نیوکلئر پروگرام تھا، اس کو تباہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ شام کیخلاف کارروائی سے پہلے یہی طریقہ اختیار کیا۔ لیکن پاکستان کا معاملہ بہت ہی مختلف ہے۔ اگر پاکستان کو ایسا خطرہ بھی ہوگا تو صرف امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں بھی ایسا نہیں سوچ سکتیں۔
ملک کی معاشی مشکلات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی پاکستان کو جو آکسیجن لگئی ہوئی ہے وہ مغربی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور بین الاقوامی بینکوں نے لگائی ہوئی ہے۔ اگر یہ تھوڑا سا ہاتھ کھینچ لیں تو پاکستان معاشی طور پر دھڑام سے گر پڑے گا۔