سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں کلین چٹ ملنے کے باوجود مشکلات کم نہ ہوسکیں۔
پاک فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سنگین الزامات پر اعلی سطح انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی کی سربراہی ایک میجرجنرل کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نے خود احتسابی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ادارہ جاتی انکوائری کرنے کا فیصلہ کیا۔
ذرائع کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف ٹاپ سٹی کے معاملے پر تحقیقات کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر درخواستگزار چاہیں تو وہ معاملے پر وزارت دفاع سے رجوع کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور اگر درست ہیں تو بلاشبہ وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔ لہٰذا اس معاملے کو ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
گزشتہ سال ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان نے آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے فیض حمید کی جانب سے اثرورسوخ استعمال کرکے ان کو اور ان کے اہلخانہ کو حراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔
معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ 12 مئی 2017 کو فیض حمید کے کہنے پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ٹاپ سٹی آفس اور معیز احمد کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر سے قیمتی اشیاء جس میں گولڈ، ڈائمنڈ اور پیسے وغیرہ شامل ہیں۔ قبضے میں لے لی تھیں جس کے بعد فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ بھی کیا -
ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کا مزید کہنا ہے کہ فیض حمید نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان سے خود ملاقات بھی کی جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان میں سے کچھ چیزیں جو کہ ریڈ کے دوران آئی ایس آئی اہلکار ساتھ لے گئے تھے وہ ان کو واپس کر دی جائیں گی مگر 400 تولہ سونا اور نقد رقم واپس نہیں کی جائے گی-
معیز احمد خان کی درخواست کے مطابق آئی ایس آئی اہلکاروں نے ان سے زبردستی چار کروڑ روپیہ نقد بھی لیا۔ معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں آئی ایس آئی کے دیگر افسران، فیض حمید اور ان کے بھائی سردار نجف پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ ٹاپ سٹی کو غیر قانونی طور پر ٹیک اوور کرنا چاہتے تھے
درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت کی تھی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ یہ معاملہ سنگین نوعیت ہونے کی وجہ سے ادارے کی عزت اور توقیر میں حرف آسکتا ہے، اس لیے اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت عظمی نے معاملے پر مزید تحقیقات کے لیے درخواست گزار معیز احمد خان کو کہا تھا کہ وہ وزارت دفاع سے رجوع کرسکتے ہیں۔
معیز احمد خان کی جانب سے کاروائی نہ ہونے کے خدشہ پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس معاملے پر مکمل تعاون کیا جائے گا اور قانون کے مطابق اس کے اوپر ایکشن لیا جائے گا۔