Get Alerts

سقوط ڈھاکہ کے 53 سال۔۔۔کیا ہمارے پاؤں الٹے ہیں ؟

قومی اسمبلی میں تو عوامی لیگ کافی سیٹیں جیت گئی ہے اب تم صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں دھاندلی کرو، جو بھی( مشرقی پاکستان) اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑدی جائیں گی۔

 (آخری قسط)

1970 کے انتخابات کی کہانی اور دھاندلی

1970 کے انتخابات جس کا ڈھنڈورا خوب پیٹا جاتا ہے کہ یہ  پاکستان کی تاریخ کے آزاد،شفات اور منصفانہ انتخابات تھے ، اس کا پردہ ایک سابق سفیرارشد سیمی  خان اپنی کتاب  Three presidents and and an aide میں کرتے ہیں ۔ سفیرارشد سیمی خان ایوب خان کی ایک میٹنگ کاآنکھوں دیکھا احوال بتاتے ہیں کہ کس طرح  ایوب خان میجر جنرل غلا م عمر کے ذریعے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کیے گئے پیسوں کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " قومی اسمبلی میں تو عوامی لیگ کافی سیٹیں جیت گئی ہے اب تم صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں دھاندلی کرو"۔

“what become of of all that financing of Qayyum Khan, Saboor Khan and Bhashani”۔

شجاع نواز نے اپنی کتاب crossswordsمیں ( صفحہ 260) لکھا ہے کہ :" ملٹری انٹیلی جنس کو توقع تھی کہ عوامی لیگ  کو مشرقی پاکستان  میں 167 میں سے  46 سے زیادہ سیٹیس ملیں ملیں گی ، جبکہ پیپلز پارٹی کو(مغربی پاکستان کی 144 میں سے زیادہ سے زیادہ 30 سیٹیں  ملیں گی۔ شجاع نواز مزید لکھتے ہیں کہ (صفحہ 260) :”شیخ مجیب الرحمن نے    مغربی پاکستان میں میاں ممتا ز دولتانہ کیساتھ ایک انتخابی اتحاد بنانے کی کوشش کی اور اسے 25سے30 نشستیں مشرقی پاکستان میں دینے کی آفر کی کہ تم مغر بی پاکستان میں ہمارے بند ے ایڈجسٹ کرو، جس مطلب تھا کہ شیخ مجیب الرحمن متحدہ پاکستان کا وزیراعظم بننا چاہتا تھا “ مگر یہ منصوبہ  آگے نہ بڑھ سکا ۔

پھر تاریخ نے دیکھا کہ جنرل یحییٰ خان جو اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہوچکا تھا ، اس نے  LFOجاری کیا جس کے تحت انتخابات کا اعلان کیا گیا ،7دسمبر  1970 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ، مگر حیران کن طور پر مشرقی پاکستان میں ایک بھی امیدوار کھڑا نہ کیا جو شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے ، جبکہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے امیدوار وں نے شرکت کی ۔ 1970 کے انتخابی نتائج کے مطابق مشرقی پاکستان  کی 162 میں سے 160 سیٹوں پر شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو کامیابی ملی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی  کو 138 میں سے 81 سیٹوں پر کامیابی ملی ۔یہ نتائج اسٹیبلشمنٹ کیلئے حیران کن تھے ، یہاں  جنرل یحییٰ خان نے اقتدار شیخ مجیب الرحمن کو سونپنے سے انکار کردیا (ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور چئیرنگ کراس پر تقریر کرتے ہوئےدھمکی دی کہ :”جو بھی( مشرقی پاکستان) اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑدی جائیں گی “، جو سابق وزیراعظم کے اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے ۔

شیخ مجیب کو جب اقتدار حوالے نہ کیا گیا اور اسمبلی اجلاس ملتوی ملتوی کردیا گیا  تو عوامی لیگ کے احتجاج میں شدت آتی گئی ،پرتشدد مظاہرے اور ہنگامے پورے مشرقی پاکستان میں پھوٹ پڑے ، جس کے نتیجے میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا یہی وہ تاریخی غلطی تھی جو آگے جاکر پاکستان کے دولخت ہونے کا باعث بنی ۔ ملٹری آپریشن (آپریشن سیٹلائٹ ) شروع کرنے کی اس وقت کے مشرقی پاکستان میں تعینات فوجی کمانڈر لیفٹنیٹ جنرل  صاحبزادہ یعقوب علی خان (جو بعد میں ضیا ء اور بینظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر خارجہ بھی رہے ) نے مخالفت کی ۔ان کی مخالفت کے بعد جنرل ٹکا خان کو بھیجا گیا،ٹکا خان اپنے آپریشن میں ناکام رہا ، پھر جنرل حمید عبداللہ خان نیازی کو مشرقی پاکستان میں آپریشن کی قیادت کرنے کیلئے بھیجا گیا  ،جس نے بنگالیوں پر ظلم کی انتہا کردی اور جو نفرت کے بیج جنرل نیازی نے بوئے وہ 50 سال گزرنے کے باوجود ختم  نہیں ہوپائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل نیازی کو سرنڈر کرنے کا حکم سرے سے دیا ہی نہیں گیا تھا ، اسے صرف سیز فائز کرنے کا حکم ملا تھا ، بریگیڈئیر صدیق سالک اپنی کتاب "میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا  میں لکھتے ہیں کہ :”جنرل نیازی اتنا ڈرپوک آدی تھا کہ وہ اس وقت کے گورنر (مشرقی پاکستان ) جنرل راؤ فرمان علی کے سامنے جاکر ہچکیا ں لےلیکر روتا تھا“۔

جنرل عبد اللہ خان  نیازی کے   مکروہ  چہرے کو اس کے اپنے ہی ماتحت  میجر جنرل خالد حسین راجہ  نے اپنی کتاب A stranger in my own country (صفحہ 92)میں لکھتے ہیں کہ :” Niazi became abusive and started raving ,Breaking into Urdu, he said:”Main is haramzadi qaum ki nasal badal doon ga. Yeh mujhe kiya samajhtey hain“ 

ڈھاکہ میں جنگ صرف دو ہفتے ہی جاری رہے سکی ۔۔۔آخر کیوں ؟

ڈھاکہ میں 9 ماہ کی خانہ جنگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ، 93 ہزار فوجی اور سویلین جنگی قیدی بنالیے گئے ، مغربی پاکستان میں ہزاروں کلو میٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا ،  جنگ صرف دو ہفتے ہی جاری رہ سکی ، لیکن کیوں ؟ 1971 کے زمانے میں تو فوج 1965 کے مقابلے میں کافی مضبوط تھی ، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ عوام ساتھ نہیں تھی ۔ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمیں سقوط ڈھاکہ سے یہی سبق ملتا  ہے کہ کوئی بھی جنگ عوامی حمایت کے بغیر ہرگز نہیں لڑی جاسکتی ۔ دوسرا یہ کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا جائے تو عوام میں نفرتیں جنم لیتی ہیں ،  مقبول عوامی لیڈروں کو جب ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے تویہ عوام  میں ان کی   مقبولیت کا باعث بنتا ہے ۔

ذوالفقار علی بھٹو کا اگرچہ  کردارسقوط ڈھاکہ  کے سانحے میں سوالیہ ہے لیکن ضیاء کی آمریت کےکیخلاف جھکنے سے انکار کرکے انھوں نے عوام اور تاریخ میں اپنے آپ کو امر کردیا ، عمران خان کی عوامی مقبولیت  کے سامنے موجودہ پاکستان میں دیگر رہنما بونے نظر آتے ہیں لیکن ریاست مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے ، یہ صورتحال  تشویش ناک ہے۔ ریاست کو اپنے طرز عمل پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے ، سیاسی جماعتوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے دیں ، ، سیاست سے کنارہ کشی  ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ریاست کے تمام ستونوں میں طاقت کا توازن برقرار رہ سکتا ہے ۔میڈیا کی ساکھ بھی عوام کی نظروں میں کچھ زیادہ اچھی نہیں ،سینسر شپ نے میڈیا کے ادارے کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ریاست اپنے بیانئے کو عوام پر مسلط کرنے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے، اب ففتھ جنریشن وار سے لیکر ڈیجیٹل دہشتگردوں تک سب بیانئے عوام  کے سامنے بے بس نظرآتے  ہیں ۔ عوام کا مینڈیٹ عوام کے منتخب نمائندوں کو دینے سے ہی تما م معاملات کا حل نکالا جاسکتا ہے ، یہی سقوط ڈھاکہ کا سبق ہے !

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔