ڈی ایچ اے اسلام آباد میں گھسنے والا تیندوا جنگلی تھا یا بااثر فوجی آفیسر کا پالتو؟

ڈی ایچ اے اسلام آباد میں گھسنے والا تیندوا جنگلی تھا یا بااثر فوجی آفیسر کا پالتو؟
16 فروری کی شام کو ٹوئٹر پرایک تیندوے کی ویڈیو سامنے آئی جو دارالحکومت اسلام آباد کی رہائشی سوسائٹی ڈٰی ایچ اے فیز 2 میں ایک گھر سے دوسرے گھر میں چھلانگیں مار کر داخل ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم بی) کے ٹوئٹر اکاونٹ سے لیپرڈ جسے تیندوا یا گُلدار بھی کہا جاتا ہے، کو ریسکیو کرنے کی تصدیق ہوئی۔ ایک ویڈیو میں وائلڈ لائف کے اہلکار تیندوے کو ڈارٹ گن (ٹرانکوئلائزر گن) سے مارتے ہیں، جس سے تیندوا بے ہوش ہو کر ریسکیو کر لیا جاتا ہے۔ نر تیندوا اب آئی ڈبلیو ایم بی کے بحالی سنٹر میں موجود ہے۔

تیندوے کو ریسکیو کرنے کی کہانی اپنی جگہ، لیکن اس واقعے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ آئی ڈبلیو ایم بی کے پاس ڈارٹ گن کیوں نہیں ہے؟ کیا ایک جنگلی جانور کو ریسکیو کرنے کا یہ طریقہ صحیح تھا؟ رہائشی سوسائٹی میں تیندوا کس طرح داخل ہوا؟ کیا یہ لیپرڈ کسی کا پالتو تھا؟ اور خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر وادی تیراہ میں تیندوے کے جوڑے کو کیوں مارا گیا؟

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے پاس ڈارٹ گن (ٹرانکوئلائزر گن) کیوں نہیں ہے؟

ڈی ایچ اے میں تیندوے کو ریسکیو کرنے کے لئے آئی ڈبلیو ایم بی کے پاس ڈارٹ گن موجود نہیں تھی۔ ادارے کے ایک اہلکار نے اسلام آباد میں ویٹرنری سرجن اینڈ فزیشن ڈاکٹر ساجد حسین سے رابطہ کیا اور انہوں نے تیندوے کو ریسکیو کرنے کے لئے ٹرانکوئلائزر گن مہیا کی جس سے تیندوے کو ریسکیو کیا گیا۔ اس حوالے سے آئی ڈبلیو ایم بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق بنگش نے بتایا کہ ان کے پاس تیندوے یا دوسری جنگلی حیات کو ریسکیو کرنے کے لئے کوئی ڈارٹ گن موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے۔ طارق بنگش نے کہا کہ جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لئے جدید آلات کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ ڈی ایچ اے آپریشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس 25 رینجرز اہلکار ہیں جو ریسکیو سمیت پٹرولنگ بھی کرتے ہیں اور تیندوے کو ریسکیو کرنے کے لئے ٹیم نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر آپریشن کامیاب کرایا۔

کیا تیندوے کو ریسکیو کرنے کا یہ طریقہ صحیح تھا؟

جنگلی جانوروں کے ماہرین کے مطابق ہر جانور کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ وہ انسانوں کی طرح ایک جیسے رویے نہیں رکھتے۔ اسلام آباد میں ویٹرنری سرجن اینڈ فزیشن ڈاکٹر ساجد حسین نے اس حوالے سے بتایا کہ تیندوے کو ریسکیو کرنے کا یہ طریقہ بالکل غلط تھا۔ جس طرح سے آپریشن کے ایریا میں لوگ جمع تھے، جس طریقے سے اہلکاروں نے ریسکیو آپریشن کیا اور جس گن سے آپریشن ہوا، یہ سارے طریقے کسی بھی جنگلی جانور پر بہت ہی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس طریقے سے جنگلی جانور کو ریسکیو کرنا ایک خطرناک عمل ہے۔ ڈاکٹر ساجد حسین نے مزید کہا کہ دوسرے ممالک میں جنگلی جانوروں کو تحفظ دینے کے لئے ریسکیو ٹیمیں بھی جانوروں کی نفسیات کو سمجھتی ہیں۔ متعلقہ ادارے کے پاس ڈارٹ گن کا نہ ہونا تشویش ناک بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر جانور کو ریسکیو کرنے کے لئے الگ گنز اور الگ طریقے درکار ہوتے ہیں۔ ٹرانکوئلائزر گن خاص آپریشن میں استعمال ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ساجد کا کہنا تھا کہ تیندوا انسانوں کے پاس نہیں آتا، انسانوں کی آبادی تیندوؤں کے مسکن کی طرف جا چکی ہے اور یہ تصادم اب ہو گا۔

ڈی ایچ اے میں تیندوا کس طرح داخل ہوا، کیا یہ لیپرڈ کسی کا پالتو تھا؟



ڈی ایچ میں تیندوے کو ریسکیو کرنے کے بعد اسلام آباد تھانہ سہالہ میں نامعلوم افراد کے خلاف دفعہ 324/289 ت پ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر تصدیق کی ہے لیکن کچھ صارفین نے کہا کہ یہ لیپرڈ ایک اعلیٰ رینک کے ریٹائرڈ فوجی آفیسر کا پالتو ہے جسے غیر قانونی طریقے سے گھر میں رکھا گیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے جب سہالہ تھانہ سے رابطہ کیا گیا تو متعلقہ تھانہ کے اہلکار نے کہا کہ اس وقت اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور نامعلوم افراد کی تلاش جاری ہے۔ آئی ڈبلیو ایم بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق نے کہا کہ ڈی ایچ اے میں لیپرڈ کے داخل ہونے کے حوالے سے ہمارے پاس شواہد ناکافی ہیں۔ اسلام آباد مارگلہ ہلز تیندوؤں کا مسکن ہے اور وہاں آئی ڈبلیو ایم بی کے زیر نگرانی 7 سے 8 تیندوے موجود ہیں لیکن ڈی ایچ اے میں مارگلہ ہلز سے تیندوا کیسے آ سکتا ہے، اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔



یاد رہے کہ تیندوا پاکستان کا مقامی جانور ہے۔ پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا میں اس کی تعداد زیادہ ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت اس کے شکار کرنے، اسے پالنے اور اس کی خرید و فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے۔



خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے وادی تیراہ میں تیندوے کے جوڑے کو کیوں مارا گیا؟

وادی تیراہ میں شہریوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے تیندوے


دوسرے واقعے میں ضلع خیبر کے دور افتادہ علاقے وادی تیراہ آدم خیل میں مقامی افراد نے تیندوے کے جوڑے کو ہلاک کر دیا۔ مقامی افراد کے مطابق تیندوے نے بکریوں پر حملہ کرکے انہیں چیر پھاڑ دیا تھا اور مقامی افراد نے خود کو بچانے کی خاطر تیندوؤں کو مار دیا۔ خیبر پختونخوا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے ملوث افراد کے خلاف ایکش لیا ہے اور 60 ہزار روپے جرمانہ وصول کیا۔ اس حوالے سے جب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی ڈویژنل وائلڈ لائف آفیسر حسینہ عمبرین سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ واقعہ انتہائی دلخراش ہے۔ البتہ جنگلی جانوروں کو ریسکیو کرنے میں استعمال ہونے والے آلات اور ڈارٹ گنز کے حوالے سے سوال کے جواب میں حسینہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے پاس جنگلی جانوروں کو ریسکیو کرنے کے لئے ہر ڈویژنل آفس کے پاس ٹرانکوئلائزر گن موجود ہے۔ تاہم ضم شدہ اضلاع میں ان کے پاس آلات اور دوسری سہولیات موجود نہیں ہیں۔

ڈٰی ایف او نے مزید کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر جنگلی جانور کو ٹرانکوئلائزر گن سے ریسکیو کیا جائے، بعض اوقات حاملہ جانوروں کے لئے یہ نقصان دہ ہوتے ہیں اور ٹرانکوئلائزر گن کے علاوہ اور بہت سے طریقے اور ڈرگز ہوتی ہیں جن سے جنگلی جانوروں کو ریسکیو کیا جا سکتا ہے جو محکمے کے پاس موجود نہیں ہیں۔ حسینہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا سمیت پاکستان میں جنگلی حیات سے متعلق لوگوں میں آگہی کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں کئی جانوروں کی نایاب نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں تیندوؤں سمیت دوسرے جنگلی جانوروں کو ہلاک کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ہر سال کوئی نا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ حال ہی میں ٹیکسلہ روڈ پر تیندوے کا ایکسیڈنٹ ہو یا کشمیر میں تیندوے کا بے دردی سے قتل، پرندوں کا شکار جیسے واقعات ہر سال سامنے آتے ہیں۔ واقعات رونما ہونے کے بعد متعلقہ ادارے حرکت میں ضرور آتے ہیں لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ حقیقت میں پاکستان میں جنگلی حیات کا ریکارڈ بھی متعلقہ محکموں کے پاس نہیں ہوتا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود تو ہیں لیکن یہاں جنگلی حیات محفوظ نہیں ہیں۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔