پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں پرانی باتوں کو پھر سے ایک نئے انداز میں کہنے کی کوشش کی ہے۔ اگر عمران خان کے انٹرویوز اور تقاریر کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کافی عرصے سے ان کے پاس گفتگو کرنے اور الزام عائد کرنے کے لیے صرف چند ہی موضوعات رہ گئے ہیں۔ انسان نئے اور تازہ موضوعات کی طرف تب جاتا ہے جب وہ کچھ نیا سیکھتا ہے یا پھر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ عمران خان نہ تو کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی کوئی حکمت عملی اپنانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ قابل رحم عمران خان کے حمایتی ہیں جو مسلسل ایک ہی طرح کی باسی گفتگو کو جھیلتے چلے آ رہے ہیں۔
بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر ساری توانائیاں اپنی پرانی باتوں اور الزامات کو دہرانے میں صرف کی ہیں۔ وہی باجوہ صاحب اور پی ڈی ایم کی سازش، ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے بنائی گئی پی ڈی ایم کی حکومت اور یہ بھی کہ ان کے دور حکومت میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری تھیں جبکہ موجودہ حکومت نے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ان کے کیسے روابط ہیں اور کیا انہوں نے صدر عارف علوی کی مدد سے نئی فوجی قیادت سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے تو ان کا جواب تھا کہ اس وقت نئی فوجی قیادت سے ان کا کوئی ریلیشن شپ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان خلاف توقع اس بات پہ سچ بول رہے ہیں کیونکہ وہ جس طرح کے موجودہ سیاسی فیصلے کر رہے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تاحال اسٹیبلشمنٹ کے دست شفقت سے محروم ہیں اور ان پر دباؤ ڈال کر پھر سے کوئی ریلیشن شپ بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینا ایک بے آسرا اور مایوس سیاسی لیڈر کے اقدام دکھائی دیتے ہیں جو پھر سے کسی دست شفقت کا متمنی ہے۔ دوسری طرف باخبر حلقوں کے مطابق عمران خان صدر عارف علوی کے ذریعے سے نئے آرمی چیف کے ساتھ تعلقات بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت کے دور میں معیشت درست سمت میں جا رہی تھی مگر مخالف سیاسی جماعتوں نے جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ مل کر ہماری حکومت گرا دی۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہماری کون سی غلطی تھی جس کی بنیاد پر ہماری حکومت کے خلاف سازش کی گئی۔ پاکستان میں صرف عمران خان کو اس بات کا نہیں پتہ کہ ان کی کون سی غلطی تھی جس کی بنیاد پران کی حکومت گئی تھی ورنہ تو سب کو خبر ہے کہ خرابی کہاں پیدا ہوئی تھی۔ عمران خان کی حالت میر تقی میر کے اس شعر کی عملی تصویر بن کے رہ گئی ہے؛
؎ پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
سبھی کو خبر ہے کہ کس طرح عثمان بزدار اور گوگی پنکی گینگ نے اس ملک کے قانون اور اداروں کی ساکھ اور کارکردگی کو نقصان پہنچایا۔ جن کی یادداشت تھوڑی سی بھی قائم ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طرح عمران خان کے دور حکومت میں بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ملک کی معیشت شدید ابتری کا شکار تھی۔ ان کے اپنے حمایتی بھی اس حکومت کو لانے کے جرم میں باجوہ صاحب اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو لعن طعن کر رہے تھے۔ عمران خان کا وطیرہ بن چکا ہے کہ انہوں نے اپنی حماقتوں اور غلطیوں کو نہیں ماننا اور اپنی ہر ناکامی کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈالنا ہے۔ آج کل ان کے پاس جنرل (ر) باجوہ کی صورت میں یہ کندھا دستیاب ہے۔ یہ کندھا بھی آہستہ آہستہ ان کے الزامات کے بوجھ سے سرکنے لگا ہے اور اس نے بھی عمران خان کے الزامات پر اپنا ردعمل دینا شروع کر دیا ہے۔
عمران خان نے ایک مرتبہ پھر وہی راگ الاپا کہ انہوں نے اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے ساتھ مل کر باجوہ صاحب کو بتایا تھا کہ اگر ان کی حکومت گرائی گئی تو ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو جائے گا جس سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے بعد معیشت کسی سے بھی نہیں سنبھالی جائے گی اور پھر ویسا ہی ہوا جیسا ہم نے باجوہ صاحب کو بتایا تھا۔ عمران خان خود کئی بار اعتراف کر چکے ہیں کہ جب وہ جنرل (ر) باجوہ سے مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مقدمات بنوانے کا کہتے تھے تو باجوہ صاحب ان کو ملک کی معیشت پر کام کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر عمران خان کے دور حکومت میں معیشت اتنی ہی اچھی تھی تو باجوہ صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے وقت نیوٹرل رہ کر اتنی ساری رسوائی مول لینے اور اچھی بھلی معیشت والی حکومت کو گرانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟ اصل میں جو حقیقت ہے اس کو عمران خان تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ معیشت عمران خان کی ترجیح تھی ہی نہیں۔ ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر مختلف سیاسی رہنماؤں کو گندا کرنا اور ان کے خلاف کیسز بنوا کر جیلوں میں ڈالنا تھا۔
انٹرویو میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں قانون کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ حکومت میں موجود چوروں نے خود کو قانون سے بالاتر قرار دے کر اپنی چوریاں معاف کروا لی ہیں۔ ہم قانون کی بالادستی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس وقت الیکشن میں دو ماہ کا وقت بھی زیادہ لگ رہا ہے۔ ہم فوری الیکشن کے حق میں ہیں کیونکہ جس حساب سے ہماری معیشت گر رہی ہے، خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس صرف چار ارب ڈالر کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی پیشگوئی کے مطابق موجودہ حکومت اپریل میں الیکشن کروانے پر مجبور ہو جائے گی۔
اگرچہ موجودہ حکومت معیشت کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو رہی اور خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے، حکومت کے اوپر اس ناکامی کی بدولت تنقید بھی ہو رہی ہے مگر عمران خان یہ نہیں بتاتے کہ ان کے پاس ایسا کون سا منصوبہ ہے جس کے ذریعے سے وہ ملک کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دیں گے یا وہ کون سی حکمت عملی ہے جو ان کے پاس تو ہے مگر موجودہ حکومت اس سے محروم ہے۔ عمران خان کے پاس جادو کا جو چراغ ہے وہ ان کے اپنے دور حکومت میں کیوں چمتکار نہ دکھا سکا اور ان کے دوبارہ حکومت میں آنے سے ایسا کون سا معجزہ ہو جائے گا جس سے ملک کی معیشت سنبھل جائے گی۔ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ ایک نوجوان کھلاڑی کی طرح صرف دوسری باری لینا چاہتے ہیں۔ اپنے دور حکومت میں بار بار وہ وزیر خزانہ ہی بدلتے رہ گئے۔ اب بھی اگر وہ واپس آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر سے وہی اگر مگر چونکہ چنانچہ والی گردان شروع کر دیں گے جو انہوں نے پچھلی بار 90 دن میں معیشت ٹھیک کر دینے کے دعوے کے ساتھ حکومت میں آنے کے بعد کی تھی کہ ایک ٹرم میں سب کچھ ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ غالب نے کہا تھا؛
؎ تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جاناں
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
موجودہ حکومت کے بارے میں بھی موصوف نے ایک مرتبہ پھر وہی بھاشن دہرایا کہ یہ حکومت الیکشن کی بجائے 'آکشن' کے ذریعے سے وجود میں آئی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ شہباز شریف کی حکومت ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے سے آئی ہے جس کے لیے ہر رکن اسمبلی کو 20 سے 25 کروڑ روپے دے کر خریدا گیا تھا۔ عمران خان یہ الزامات کئی بار دہرا چکے ہیں مگر ان الزامات کا وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ اگر ان کو ہارس ٹریڈنگ اور پیسوں کے استعمال کا اتنا ہی یقین ہے تو پھر وہ ثبوت لے کر عدالت میں کیوں نہیں جاتے۔
دراصل عمران خان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ 'آکشن' کے ذریعے سے حکومت کس طرح وجود میں آتی ہے۔ ان کو اقتدار میں لانے کے لیے ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی اور خوشحالی کو بھی داؤ پہ لگا دیا تھا۔ اگر عمران خان اپنے آس پاس کے لوگوں پر نظر ڈالیں گے تو ان کو عمر گوہر ایوب، غلام سرور نیازی، اسد عمر، شفقت محمود، پرویز خٹک، شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی کے پیچھے ظہیرالاسلام عباسی، احمد شجاع پاشا، فیض حمید اور باجوہ صاحب جیسے کئی جرنیلوں کے چہرے دکھائی دیں گے جنہوں نے عمران خان کو اس ملک اور قوم پر مسلط کرنے کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی 'آکشن' کا اہتمام کیا تھا۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔