سیاسی سرکس اور نئی حکومت کے لیے معاشی چیلنج کی تنی ہوئی رسی

نئی حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے بلوں اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کر سکے۔ صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں جیسی ضروری خدمات پر کچھ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے۔ ان سب کو یکجا کرنے کا مطلب ہے زیادہ ٹیکس، زیادہ شرح سود اور روپے کی قدر میں مزید کمی۔

سیاسی سرکس اور نئی حکومت کے لیے معاشی چیلنج کی تنی ہوئی رسی

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ فرائیڈے ٹائمز کے بانی ایڈیٹر نجم سیٹھی نے 'دی وائر' کے شو میں کرن تھاپر کے ساتھ اپنی بات چیت میں انتخابات کے بعد کے منظرنامے کا گہرائی سے تجزیہ کیا۔

پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کرکٹ بیٹ سے محروم ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی جیت کا راستہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ تاہم فتح کی حد ابھی تک غیر یقینی ہے۔ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ اگر ن لیگ 100 سے زائد نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی تو کیا ہو گا؟ کیا ہو گا اگر وہ 70 یا 80 نشستیں حاصل کرتی ہے، یا انہیں دی جاتی ہیں اور انہیں (نواز شریف کو) ناقابل اعتماد شراکت داروں کے اتحاد پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو مسلسل مراعات مانگتے رہتے ہیں؟ وہ مؤثر طریقے سے حکومت نہیں کر سکیں گے۔ کیا وہ پھر بھی وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہوں گے، یا پھر وہ شو اپنے بھائی اور بیٹی کے حوالے کرنا چاہیں گے؟

نجم سیٹھی کی بات چیت میں بے شمار 'اگر' شامل ہیں۔

دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری اپنے اپنے انداز میں اسلام آباد پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں لاہور میں علامہ طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ کا دورہ کیا، جہاں انہیں لاہور کے این اے 127 سے ان کی امیدواری کی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے ماڈل ٹاؤن کیس کی ازسرنو تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا جس میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف پولیس کی بربریت شامل ہے جس میں کئی افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ بیان منظرنامے میں ایک دلچسپ جہت کا اضافہ کرتا ہے۔ جب سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیا تو نواز شریف وزیر اعظم اور شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ علامہ طاہر القادری نے 2014 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلانے اور نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور عمران خان 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق اپنے مطالبے کے ہمراہ ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اب پاکستان عوامی تحریک بلاول بھٹو کی حمایت کر رہی ہے جن کی پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ اتحادی رہی ہے جہاں وہ وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم یہ بھول جائیں کہ علامہ طاہر القادری نے 2013 میں آصف علی زرداری کے دور صدارت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی قیادت بھی کی تھی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اب آصف علی زرداری پی ٹی آئی کے امیدواروں اور آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ اور بلاول دونوں پی ٹی آئی کے بارے میں قدرے نرم مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دریں اثنا مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں علیم خان، جہانگیر ترین اور دیگر پر مشتمل اتحاد استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کیا ہے۔ نجم سیٹھی کے مطابق پی ٹی آئی واضح طور پر نقصان کی حالت میں ہے اور یہ وہ مقام ہے جو انہوں نے 2018 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے رومانس میں اپنے لیے کمایا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی قانونی سمیت کئی محاذوں پر اپنی لڑائی لڑ رہی ہے، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے ایک غیر متوقع موڑ پر استعفیٰ دے دیا ہے جسے 'جوڈیشل مینجمنٹ' کہا جا رہا ہے۔

اس مضمون کو لکھنے کے وقت تک سیاسی تصویر اسی طرح نظر آتی ہے۔ 8 فروری کے بعد یہ کیسی ہو گی، یہ فیصلہ دیگر عوامل کریں گے، خاص طور پر معیشت۔

کوئی بھی سیٹھی سے اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ایک کمزور مخلوط حکومت ہو گی۔ اس پیش گوئی میں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے اور آصف علی زرداری کے دوبارہ صدر بننے کے امکانات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا اس کے برعکس اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ نمبر گیم کس طرح سامنے آتی ہے اور کون اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد بہتر طور پر جیت سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست اور اختلافات کے باوجود اگر شہباز شریف صدر منتخب ہوتے ہیں تو مریم نواز کے پاس پنجاب کی وزیر اعلیٰ بننے کا بہتر موقع ہو سکتا ہے اور شاید موجودہ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی لاہور کے میئر بن جائیں۔ تاہم اگر آصف علی زرداری صدر بن جاتے ہیں تو اس طرح کے انتظام کا تصور کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی پسند کا وزیر اعلیٰ پنجاب چاہیں گے جو محسن نقوی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں ممکن ہے مریم نواز وفاقی کابینہ میں اہم قلمدان سنبھال لیں۔

تاہم جس کے پاس بھی اقتدار ہو گا وہ انتہائی زیادہ استعمال شدہ کریڈٹ کارڈ کے ساتھ خریداری کرنے نکلے گا اور شاپنگ کارٹ کچھ اس طرح نظر آتا ہے۔

مالی سال 2024-25 کے بجٹ کا حجم 16.50 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے جس میں ٹیکس وصولی کا ہدف 11.00 ٹریلین روپے ہے یعنی یہ بجٹ 5.5 ٹریلین روپے خسارے والا ہو گا۔ پاکستان کو 2026 تک 77 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے واپس کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں (ایس او ایز) کا 1200 ارب کا سالانہ نقصان، 800 ارب روپے سے زائد کا پنشن بل، آئی پی پیز کا 3 ٹریلین روپے کا گردشی قرضہ، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور علاقائی سلامتی کی صورت حال کے تناظر میں دفاعی بجٹ میں اضافے کا مطالبہ جیسے عوامل شامل ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو اّنے والی حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے بلوں اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کر سکے۔ صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں جیسی ضروری خدمات پر کچھ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے۔ ان سب کو یکجا کرنے کا مطلب ہے زیادہ ٹیکس، زیادہ شرح سود اور روپے کی قدر میں مزید کمی۔ مختصر یہ کہ زیادہ یوٹیلٹی بل اور زیادہ مہنگی خوراک۔

ایسا ہی لگتا ہے اور اگلی حکومت کی طرف سے اس کو پیٹھ پر لادنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

کرن تھاپر کے ساتھ بات چیت کے پہلے حصے میں سیٹھی نے انتخابات کے بعد خاص طور پر پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے عوامی ہنگامہ آرائی کے امکان کو مسترد کر دیا۔ تاہم اگر حکومت غذائی افراط زر کو کم کرنے میں ناکام رہی جو اس وقت تقریباً 80 فیصد ہے یا معاشی طور پر مشکلات کے شکار عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی تو اگلی حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کے امکان کو مسترد کرنا مشکل ہو گا جو پی ڈی ایم اتحاد کا ممکنہ ری میک ہو گی۔

سیاسی شکست کو برداشت کرنا ممکن ہو سکتا ہے، بھوک کو نہیں۔