انتخابات میں PTI کی ڈیجیٹل ٹیم فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے

پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل ٹیم نے ایک ویب سائٹ بنا دی ہے جس میں انہوں نے پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام آزاد امیدواروں کا ڈیٹا، انتخابی نشان اور متعلقہ حلقوں کے بارے میں معلومات درج کر دی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بارے میں ووٹرز کو معلومات فراہم کرنا ہے۔

انتخابات میں PTI کی ڈیجیٹل ٹیم فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے

پاکستان تحریک انصاف ایک وقت میں پاکستان میں ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت تھی جس کو جنرل مشرف کے دور میں بھی منصوبہ بندی کے تحت لانے کی کوشش کی گئی تھی مگر پھر کچھ وجوہات کی بنا پر مسلم لیگ ق بن گئی اور پاکستان تحریک انصاف رفتہ رفتہ سفر طے کرنے لگی۔ 2008 میں پارٹی نے الیکشن لڑا اور عمران خان اپنی سیٹ جیت گئے۔ یہاں سے عمران خان کی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف اٹھنے والا عمران خان مستقبل کا وزیر اعظم بنے گا اور اس کی پارٹی ایک بڑی پارٹی بن جائے گی۔ کیونکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو کافی زیادہ فوقیت دی تھی اور غالب گمان تھا کہ 2013 کے الیکشن میں عمران خان وزیر اعظم بن جاتے مگر پھر وہ منصوبہ زیرالتوا ہو گیا۔ مگر اس وقت ایک تحریک ابھرنی شروع ہوئی۔

اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف سے ہاتھ اٹھا لیے، سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا جو سیدھا سیدھا امریکہ کو جواب تھا کہ وہ چین کی جانب جانے والا ہے۔ یہ امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا اور پھر نواز شریف کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف غالب رہنے والی سیاسی قوت بن جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جو مقصد پورا کرنا چاہتی تھی وہ اسں نے کیا۔ سی پیک اتھارٹی بنا دی گئی، چین کے ساتھ جو کام ہونا تھا وہ عمران خان کے ذریعے کر دیا گیا۔ پھر وقت پلٹا کھاتا ہے اور عمران خان وہی غلطیاں کرنے لگتا ہے جس کی سزا نواز شریف بھگتتا ہے۔ وہ ایسے الزامات کے گرداب میں پھنس جاتا ہے کہ واپسی کی راہ ہی نہیں ہوتی مگر جب عمران خان وہی غلطیاں کرتا ہے تو پارٹی جہاں سے شروعات کرتی ہے اس کو وہیں واپس لے جانے کی ٹھان لی جاتی ہے۔ اس کے مواقع پی ٹی آئی کے ورکرز خود اسٹیبلشمنٹ کو دیتے ہیں۔

یہ ہنگامہ 9 مئی 2023 کو شروع ہوتا ہے جب پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنما پاکستان میں فوجی تنصیبات پر حملے کرتے ہیں۔ اس کے بعد کرشماتی عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے اعلیٰ رہنماؤں کو توشہ خانہ، عدت میں نکاح کیس، القادر ٹرسٹ، سائفر کیس اور غیر ملکی فنڈنگ کی خلاف ورزیوں جیسے الزامات میں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورعمران خان جو کبھی پارٹی کے سربراہ تھے، وہ سلاخوں کے پیچھے آجاتے ہیں۔ اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اس کے نمایاں انتخابی نشان بلے کو مسترد کرنے کے فیصلے سے شدید دھچکا پہنچتا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

متبادل نشانات کے ساتھ آئندہ انتخابات لڑنے پر مجبور پی ٹی آئی اب ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے جس کے رہنما اور حامی آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑنے اور کامیابی حاصل کرنے پر پارٹی میں دوبارہ شامل ہوں گے۔ یہ طریقہ پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ بھی کر سکتا ہے مگر ان سب رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کی صلاحیت امید کی کرن ہے۔ ڈیجیٹل اثر و رسوخ کے غلبے والے دور میں پی ٹی آئی کا نوجوان کیڈر مؤثر آن لائن مہمات کو ترتیب دینے میں ماہر ہے۔ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور دیگر ایسے پلیٹ فارمز کا سہارا لے چکا ہے۔ یہ موافقت جدید ذرائع سے ابھرتے ہوئے سیاسی منظرنامے پر پی ٹی آئی کے عزم کو واضح کرتی ہے۔

پی ٹی آئی سے بلا تو چھن گیا ہے مگر ان کے جذبے ابھی بھی جوان ہیں اور ان کے پاس سب سے بہترین ہتھیاروں میں سے ایک ان کا جذبہ اور دوسرا سوشل میڈیا ٹیم ہے جس پر انہوں نے اپنی حکومت میں کافی کام کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک ویب سائٹ بنا دی ہے جس میں انہوں نے سب آزاد امیدواروں کا ڈیٹا اور نشانات اپ لوڈ کر دیے ہیں اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو فعال کر دیا ہے جن کا مقصد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ یہ پلیٹ فارم امیدواروں کے نشانات، ناموں اور ان کے متعلقہ حلقوں کے بارے میں پوری آگاہی رکھتا ہے جو کہ ووٹرز کو پی ٹی آئی کے نامزد کردہ ناموں سے واقف کرانے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ اختراعی نقطہ نظر مشکلات کے باوجود عوام کے ساتھ مؤثر انداز میں جڑنے کے لیے پارٹی کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

جیسے جیسے 2024 کے انتخابات قریب آ رہے ہیں، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی ان کی ٹیم تیز ہو گئی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کو پروپیگنڈا تیار کرنے میں جو مہارت حاصل ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ پروپیگنڈے کی ساری تکنیک استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی تاثر کو نئی شکل دینے اور اپنے امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم سرگرم عمل ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل مہم پارٹی کی تقدیر کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اس کے علاوہ تیزی سے معلومات کی ترسیل کے دور میں عالمی سامعین آنے والے انتخابات کے نتائج کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ممکنہ طاقت کی تبدیلی کی حرکیات کا مشاہدہ کریں گے۔ وقت ہی بتائے گا کہ آیا پی ٹی آئی ان چیلنجز سے مضبوط ہو کر طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہے یا انتخابی کامیابی کی جستجو میں رکاوٹیں ناقابل تسخیر ثابت ہوں گی۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر پارٹی کے آزاد اراکین نے وفا کی تو 2024 کے انتخابات میں پی ٹی آئی منظرنامے پر ایک تاریخ رقم کر سکتی ہے جس میں یہی جوان اور ڈیجیٹل ٹیم مرکزی کردار ادا کرے گی۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔