کینیڈین وی لاگر کی تنقید: کیا ہنزہ کی ثقافت اور ماحولیات کو واقعی کوئی خطرہ ہے؟ 

کینیڈین وی لاگر کی تنقید: کیا ہنزہ کی ثقافت اور ماحولیات کو واقعی کوئی خطرہ ہے؟ 
اسلام آباد: وطن عزیز پاکستان کچرا اور گندگی پھیلانے پر اکثر خبروں اور تجزیوں کی زینت بن جاتا ہے اور تنقید کی ضد میں رہتا ہے۔ کبھی یہ تنقید پاکستان میں تعینات  غیر ملکی سفیروں کی جانب سے کی جاتی ہے تو کبھی پاکستان میں بسنے والے اپنے شہریوں کی جانب سے۔ لیکن پہلی بار کسی یوٹیوب وی لاگر نے پاکستان میں کچرا پھینکے، منشیات،فحاشی کو فروغ دینےاور گندگی پھیلانے پر سوالات اٹھائے۔

اس وقت گلگت بلتستان کے خوبصورت علاقے ہنزہ میں سیر پر آئی ہوئی کینیڈین وی لاگر روزی گیبریل نے ہنزہ میں کچرہ پھینکے، گندگی اور فحاشی پھیلانے پر تنقید کی۔

خبروں اور مقامی لوگوں کے مطابق گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی ہنزہ جسے دیکھنے کیلئے دور دراز علاقوں سے سیاح آتے ہیں، آج کل کچھ سنگین مسائل کا شکار ہے اور اسکی وجہ وادی کا بگڑتا ماحول اور سیاحوں کی جانب سے پھیلائے جانے والے کچرے سے مقامی لوگ سخت پریشان ہیں۔

اس مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے روزی گیبریل نے طویل کیپشن کے ساتھ پوسٹ شیئر کی جس کا عنوان 'نارتھ کو صاف رکھیں' تھا۔

کینیڈین وی لاگر کے مطابق مقامی لوگوں نے مجھ  سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے پر آواز اٹھائیں جس پر میں نے آواز اٹھائی۔

روزی نے اپنے پوسٹ میں موقف اپنایا کہ ہنزہ کے مقامی لوگوں کو سیاحوں کا استقبال کرنا بے حد پسند ہے اور وہ مختلف میوزک فیسٹیول کے انعقاد پر بھی خوش ہیں لیکن اس قسم کی ڈانس پارٹیز میں اب جو ہورہا ہے اس سے انہیں اپنی روایات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں دوسرے شہروں سے لوگ آکر فحاشی، منشیات کلچر اور کچرا پھیلا رہے ہیں جس کی ہم بالکل اجازت نہیں دے سکتے۔

گلگت بلتستان میں ماحولیات کے تحفظ پر کام کرنے والے کارکن اسرار الدین اسرار نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ کینیڈین وی لاگر نے جو مسئلہ اٹھایا ہے وہ من و عن ٹھیک ہے اور لوکل سیاحوں کی وجہ سے یہاں کے ماحولیات اور ثقافت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ ایک ذمہ دار سیاحت کے کچھ اصول ہوتے ہیں مگر ملکی سیاح ان کا خیال نہیں رکھتے کیونکہ ایک طرف وہ کچرا پھینکتے ہیں تو دوسری طرف تیز موسیقی اور شور شرابے سے مقامی سیاح کو تنگ کرتے ہیں۔

اسرار الدین اسرار نے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اس وادی میں غیر ملکی سیاح آتے تھے لیکن کچھ سالوں سے ملکی سیاح بھی آتے ہیں اور اسکی وجہ سے ثقافت سمیت ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ یہاں کے باسیوں کی بھی کچھ غلطیاں ہیں لیکن سیاحت کے حوالے سے شعور نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ پریشان ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ بیرونی دنیا میں جب لوگ سیاحت کرتے ہیں یا غیر ملکی سیاح پاکستان آتے ہیں تو وہ مقامی ثقافت سمیت علاقے کی جغرافیائی معلومات بھی اکھٹی کرتے ہیں اور یہاں جو غیر ملکی سیاح آتے ہیں وہ ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے اپنے شہری اس کا خیال نہیں رکھتے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حکومت سمیت غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کو اس حوالے سے شعور پیدا کرنا ہوگا تاکہ یہاں کے ثقافت سمیت ماحولیات کو تحفظ دیا جاسکے۔

گلگت بلتستان حکومت کے ماحولیات کے افسر شہزاد شگری نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ گلگت بلتستان کی آبادی پندرہ لاکھ ہے اور سال 2019 میں پندرہ لاکھ سے زیادہ سیاح آئے تھے جن کی وجہ سے نظام پر دباؤ بڑگیا کیونکہ لوگ بھاری تعداد میں کچرہ پھینکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے صرف شہری علاقوں میں solid waste management system  کا نظام موجود تھا مگر اب ایک نیا منصوبہ شروع ہورہا ہے جسی کی منظوری دی جاچکی ہے اور اس منصوبے کے تحت دیگر سیاحتی مقامات خنجراب پاس، عطا آباد جھیل اور بابو سر ٹاپ پر بھی کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لئے مشنری لگائی جارہی ہے۔ شہزاد شگری نے موقف اپنایا کہ ہم نے گلگت بلتستان کے مختلف سیاحتی مقامات پر کچرا نہ پھینکنے کے حوالے سے بورڈز لگائے ہیں لیکن لوگ کچرا پھینکتے ہیں جس کی وجہ سے سسٹم پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کی حدود میں داخلے کے وقت ایک ماحولیاتی کتابچہ دیا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کو صاف رکھیں لیکن لوگ کتابچہ آگے جاکر پھینک دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔